انوار الحق قاسمی دیوبندی
روتہٹ (نیپال)، 11 دسمبر: سود ہر اس رقم کو کہیں گے،جو قرض دار سے نِرخ مقرر کر کے اصل سرمایے کے علاوہ بطور منافع لی جائے:یعنی ہر وہ چیز،جو ربا والی چیزوں میں زیادتی بلا معاوضہ حاصل ہو، وہ سود ہے۔ کذا فی عامة کتب الفقہ والفتاوی،جیسے کوئی شخص ایک کونٹل گیہوں دے کر، ایک کونٹل ایک کلو واپس لے، سو روپئے دے کر ایک سو دس روپئے لے وغیرہ یہ سب سود کی شکلیں ہیں،جو کہ حرام ہیں۔
چوں کہ سود کی حرمت و ممانعت اور شناعت و قباحت قرآن وسنت کی روشنی سے اظہر من الشمس ہے ؛ اس لیے یہاں ان کے تذکرہ سے پہلو تہی کرتے ہوئے، بس ایک اہم سوال زیر قلم لاتا ہوں ،جو سوال قریب قریب ہر مسلمان کے دل ودماغ میں گردش میں رہتاہے،اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا ضرورت شدیدہ کے وقت بھی سود پر قرض لینے کی شریعت میں ممانعت ہے یا اس صورت میں کوئی گنجائش بھی ہے؟
اس سلسلے میں دارالعلوم/دیوبند کے سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین مفتی سعید احمد پالن پوری- کا گراں قدر جواب پیش خدمت ہے۔ حضرت نے فرمایا:”ضرورت شدیدہ کے بغیر لون یعنی سود پر قرض لینا حرام ہے۔ ضرورت شدیدہ یہ ہے کہ تین چیزوں پر حرف آرہاہو۔ عزت پر حرف آرہاہو ، یا جان جارہی ہو یا جسم کا کوئی عضو برباد ہورہاہو۔ ایسی ضرورت شدیدہ میں لون یعنی سود پر قرض لینا جائز ہے اور لون اور سود پر قرض لے کر آدمی عزت،جان اور اپنے اعضاء کو بچا سکتاہے۔بل کہ شریعت نے ایسے موقع پر چوری کی بھی اجازت دی ہے۔ مگر افسوس کہ لوگوں نے اس مسئلہ کو عام کردیا کہ ہر ضرورت کےلیے،تو واضح رہے کہ مطلق ہر ضرورت کے لیے سود پر قرض لینا جائز نہیں ہے۔
حضرت الاستاذ نے دوران درس فرمایاتھا:”سنو! جولوگ سودی لین دین کرتے ہیں،ان کا مال یا تو ان کی زندگی ہی میں ضائع ہوجاتاہے،یا ان کے لڑکوں کے دور میں،اگر ان کے لڑکوں کے دور میں ضائع نہیں ہوا،تو پھر ان کے پوتوں کے دور میں تو ضائع ہونا ہی ہے۔اس لیے ہر مسلمان کو چاہئے کہ سودی لین دین سے گریز کریں؛کیوں کہ بلا ضرورت شدیدہ سود پر قرض لینا حرام ہے،حرام۔