صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے چھتیس گڑھ اور علی گڑھ میں ہجومی تشدد کے واقعات پر گہرے دکھ اور شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف محض شک کی بنیاد پر گھروں کو بلڈوز کیا جاتا ہے تو دوسری طرف انسانی جانوں سے کھیلنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہ آج کے نئے ہندوستان کی سچی اور خوفناک تصویر ہے۔
نئی دہلی، 22 جون(ایچ ڈی نیوز) صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سیدارشد مدنی نے چھتیس گڑھ اور علی گڑھ میں ہجومی تشدد کے واقعات پر گہرے دکھ اور شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ موجودہ لوک سبھا انتخابات میں ملک کے بیشتر لوگوں نے فرقہ پرستی کی سیاست اور نفرت کو مسترد کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فرقہ پرستوں نے لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں جو نفرت کا زہر بھر رکھا ہے وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ چھتیس گڑھ اور علی گڑھ کے یہ واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرپسندوں نے ایک بار پھر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرکے انسانیت کو داغدار کیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود اس طرح کے اندوہناک واقعات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ وہیں 17 جولائی 2018 کو سپریم کورٹ نے ایسے واقعات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ عدالت نے مرکز کو ہدایت دی تھی کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے الگ قانون بنائے۔ اب اگر اس کے بعد بھی ایسے غیر انسانی واقعات ہو رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں انہیں قانون کا کوئی خوف نہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر وہ پکڑے بھی گئے تو ان سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود پارلیمنٹ میں کوئی الگ قانون نہیں لایا گیا۔ چند ریاستوں کو چھوڑ کر، کسی نے بھی ہجومی تشدد کے خلاف قانون نہیں بنایا۔ قابل ذکر ہے کہ کچھ دن قبل چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور کے قریب ارنگ نامی جگہ پر بدمعاشوں کے ایک گروپ نے جانوروں سے لدے ٹرک کو روکا اور ڈرائیور اور دیگر دو نوجوانوں کو اس قدر مارا پیٹا کہ ان کی موت ہوگئی۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے سہارنپور اور شاملی اضلاع سے ہے۔ ان میں سے ایک کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ دوسرے کی ہسپتال پہنچنے پر موت ہو گئی۔ ان کے نام چاند میاں اور گڈو خان ہیں۔ جبکہ تیسرا نوجوان صدام خان بھی بعد میں دوران علاج دم توڑ گیا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہجومی تشدد ایک سماجی نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں اس کے خلاف کھل کر سامنے آئیں اور حکومت پر ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تازہ ترین واقعہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نہ تو مرکز اور نہ ہی ریاست ہجومی تشدد کو روکنے میں سنجیدہ ہے۔ بدلے ہوئے سیاسی حالات میں سیکولر جماعتوں کو پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، آخر کب تک مٹھی بھر لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر ایک مخصوص طبقے کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے رہیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اخباری اطلاعات کے مطابق ٹرک میں بھینسیں لدی ہوئی تھیں۔ جب بھینسوں کی خرید و فروخت پر پابندی نہیں تو فرقہ پرست عناصر نے ایسا کیوں کیا؟ جواب بہت سادہ ہے کہ یہ مذہب اور نفرت کی بنیاد پر کیا گیا۔ مولانا مدنی نے بقرہ عید کے موقع پر اڑیسہ کے بالاسور میں پیش آنے والے واقعہ پر بھی سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہیں کیونکہ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے والوں کے گریبان تک قانون کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے۔ ایک طرف محض شک کی بنیاد پر گھروں کو بلڈوز کیا جاتا ہے تو دوسری طرف انسانی جانوں سے کھیلنے والے آزاد گھوم رہے ہیں۔ یہ آج کے نئے ہندوستان کی سچی اور خوفناک تصویر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اطلاع کے مطابق چھتیس گڑھ کے واقعہ میں اب تک کسی کی گرفتاری نہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مسلمانوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ہے، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والوں کو چاہیے کہ وہ فریقین کو ہی نہیں۔ اس بربریت اور ظلم کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں لیکن حکومت پر سخت قانون لانے کے لیے دباؤ بھی ڈالیں۔ جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کو عدالت سے سخت ترین سزا دی جائے تاکہ دوسرے بھی اس سے سبق سیکھ سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک بھر میں قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
فضل الرحمان :پریس سکریٹری، جمعیۃ علماء ہند
09891961134
