17.1 C
Delhi
January 18, 2025
Hamari Duniya
مضامین

لندن میں سلیم شیرازی سے ملاقات: ایک یادگار تجربہ

Saleem Shirazi

ڈاکٹر محمد ہمایوں

(لندن)20 دسمبر  2024 کو لندن میں منعقد ہونے والے ادبی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، جہاں متعدد ادبی اور شعری شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک شخصیت ایسی بھی تھیں جنہوں نے اپنی فکری گہرائی اور شائستگی سے مجھے بے حد متاثر کیا۔ یہ تھے سلیم شیرازی، جو نہ صرف ایک معروف شاعر ہیں بلکہ صحافت کی دنیا میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں ایک خاص اپنائیت تھی، اور ان کے خیالات میں ایک فلسفیانہ بصیرت تھی جو کسی بھی سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی۔

سلیم شیرازی دہلی کے ان نمایاں ادبی شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے کئی شاگردوں کی رہنمائی کی ہے، جو آج اردو صحافت میں اہم ستنوں کا کردارادا کر رہے ہیں۔ ان کی تربیت یافتہ شخصیات صحافتی دنیا میں نہایت کامیابی سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ انہیں استاد شاعر کے طور پر زیادہ سراہا جائے یا ایک ممتاز صحافی کے طور پر۔ ان کا اثر دونوں شعبوں میں اتنا گہرا ہے کہ ان کی شخصیت ان دونوں میدانوں میں تحریک اور استحکام کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔

ان کے زبان و بیان کے منفرد انداز کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ وہ دہلی اور لکھنو دونوں تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لکھنوی ثقافت سے جڑنے کے باوجود، انہوں نے دہلی کے ماحول میں ایسے رچ بس کر اپنی تحریروں کو ایک نئی شناخت دی ہے۔ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کی شخصیت ان دونوں تہذیبوں کا بہترین امتزاج ہے، جس کی جھلک ان کی تحریروں میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔

ان کی شاعری انسانی جذبات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کی گہری عکاسی کرتی ہے۔ ان کے اشعار قاری کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ اس کی روح کو بھی چھو لیتے ہیں۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں جذبات کی شدت اور خیالات کی گہرائی نمایاں ہے، جو قاری کو اپنی زندگی کے تجربات سے جوڑ دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک سادہ مگر گہرا فلسفہ پوشیدہ ہے، جو ہر پڑھنے والے کو غور و فکر پر آمادہ کرتا ہے۔

سلیم شیرازی کا صحافتی سفر ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں ہمیشہ حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں، اور وہ معاشرتی مسائل کو نہایت بے باکی سے اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے مضامین انسانی حقوق، سماجی نابرابری، اور آزادی اظہار جیسے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہیں، جنہیں وہ سچائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں، چاہے ان میں کتنی ہی تلخی کیوں نہ ہو۔ ان کی سب سے متاثر کن بات یہ تھی کہ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ خود کو آج بھی ایک طالب علم سمجھتے ہیں اور ہمیشہ سیکھنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔

یہ ملاقات میرے لیے نہایت قیمتی ثابت ہوئی۔ ان کی شاعری، صحافت، اور شخصیت نے مجھے گہرائی سے متاثر کیا اور یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ الفاظ کے ذریعے دنیا کو کس طرح بدلا جا سکتا ہے۔ ان کی باتوں نے مجھے زندگی کے ہر لمحے میں کچھ نیا سیکھنے اور اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر کرنے کی تحریک دی۔ ان کا یہ قول ہمیشہ میرے ذہن میں رہے گا: “تحریر ایک امانت ہے، اسے ہمیشہ حق اور سچ کے لیے استعمال کریں۔

Related posts

عورتوں سے متعلق بعض مسائل میں اسلام کا موقف

Hamari Duniya

حسن اخلاق كتاب وسنت کی روشنی میں

Hamari Duniya

ماب لنچنگ، موجودہ قوانین اور حکومت

Hamari Duniya