کا نگریس کی قیادت والا انڈیا اتحاد پارلیمنٹ میں باوقارا پوزیشن کے طور پر ابھر کر کر آیا ہے،مجلس مشاورت کی تقسیم تشویشناک: مولانا سید طارق انور
پورنیہ، 2جولائی(ایچ ڈی نیوز)۔
مدت کے بعد ایک مضبوط اپوزیشن پارلیمنٹ میں دیکھنے کو ملا ہے اب تک کی کاروائی سے معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کر رہا ہے۔ راہل گاندھی کو پارلیمنٹ میں بہترین حزب اختلاف کے لیڈر کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے بلا شبہ مبارکباد دی جانی چاہیے۔ مرکز میں زیر اقتدار جماعت اچھی حیثیت سے جیت کر آئی ہے۔ اب اسے چاہئے کہ وہ بلا فرق و امتیاز ہر ایک کے لئے کام کرے۔ ملک کے قانون کی بالا دستی کو برقرار رکھے اور نظم وضبط پر سنجیدگی سے توجہ کرے۔ دل آزار بیانات دینے اور امن وامان کی صورتحال کو بگاڑنے والوں سے سختی کے ساتھ نمٹے۔
ان خیالات کا اظہار نو جوان عالم دین، سیاسی تجزیہ کار، بہار کی معروف سماجی وسیاسی شخصیت مولانا سید طارق انور نے کیا۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی تقسیم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اخبارات کو جاری اپنے ایک بیان میں مولانا طارق انور نے کہا کہ کا نگریس کی قیادت والا انڈیا اتحاد پارلیمنٹ میں باوقارا پوزیشن کے طور پر ابھر کر کر آیا ہے۔ کانگریس کے نتائج اور بھی اچھے ہو سکتے تھے اگر اس نے مسلم طبقے کی نمائندگی میں اضافہ کیا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ جتنی سیکولر پارٹیاں ہیں ان سب کا رویہ ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ رہا ہے۔ یہ پارٹیاں یہ تو چاہتی ہیں کہ مسلم رائے دہندگان ان کی جھولی میں ووٹ ڈالتے رہیں لیکن سیکولر پارٹیاں مسلم سماج کو کچھ دینے یا پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کو بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی لگ بھگ 18 فیصد ہے لیکن پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی محض 4 فی صد ہے۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ مسلم طبقے کو نظر انداز نہ کرے اور ماضی میں مسلم طبقے کی ناراضگی سے سبق حاصل کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پارلیمنٹ میں جو اپوزیشن ہے اس سے امید کی جانی چاہئے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے مفادات اور آئینی حقوق کے لئے اپنی آواز کو بلندر کھے گی۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی اور اس کی ذیلی پارٹیوں کی طرح ملک کی سیکولر جماعتوں نے بھی اک ثریتی طبقہ کے ووٹ کھسکنے اور ان کے ناراض ہونے کے خوف سے مسلمانوں سے دوری بنائی ہوئی ہے اور مسلم لیڈروں کو یا تو بیک فٹ پر ڈال دیا ہے یا ان کے اثر کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ اب جبکہ حالیہ عام انتخابات نے ان کو باور کرادیا ہے کہ ان کے اپنے کون ہیں اور پرائے کون تو اب ان کو اس عمل سے باز آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ این ڈی اے حکومت کو بنانے میں کلیدی رول اداکرنے والے بہار کے وزیر اعلی جناب نتیش کمار اور رام ولاس کے سیاسی وارث چراغ پاسوان سے امید کرتے ہیں وہ ماضی میں این ڈی اے کے دس سالہ دور اقتدار میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف لیے گئے فیصلوں بحال کرے.
اقلیتی ادارے جنہیں ایک خاص ذہنیت کے تحت مفلوج کردیاگیا ہے، ان اداروں کو فعال ومتحرک بنایا جائے اور سبھی طبقات کی ترقی و خوشحالی کے لئے منصوبے بنائے۔مولانا نے این ڈی اے محاذ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے عوام نے انہیں اس لئے ووٹ نہیں دیا کہ وہ ایک خاص قسم کی عصبیت اور لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کریں بلکہ اس لئے ووٹ دیا ہے کہ آئین کے مطابق ملک کو چلائیں اور بھارت کے عظیم الشان وقار میں اضافہ کریں۔ مولانا طارق انور نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی تقسیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملت کی سب بڑی اور وفاقی تنظیم کا دو ٹکڑوں میں بٹ جانا تکلیف دہ عمل ہے۔ مشاورت کا جو عالمی دبد بہ رہا ہے، تقسیم سے اس کی رسائی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ملک کے مسلم دانشور اور صاحب اثر لوگوں کو اس تقسیم اور انتشار کے خلاف کھل کر میدان میں آنا چاہئے۔
