بی بی گمانی بیگم وقف اسٹیٹ۔259 مادھو پارہ، پورنیہ کی عوامی مشاورتی میٹنگ میں شریک ہوئے ضلع بھر کے اہل فکرودانش
پورنیہ 6 جنوری: شہر پورنیہ کے قلب میں واقع بی بی گمانی بیگم وقف کی تاریخی، قدیم و عظیم اراضی کے امور و معاملات سے واقفیت، اس کے جملہ کاموں کو بہتر بنانے اور سیمانچل کے تمام اضلاع میں پھیلی بی بی گمانی بیگم کی کل موقوفہ اراضی کی بازیابی کی گرہیں کھولنے پر پورنیہ میں ٹھوس،سنجیدہ اور لائحہ عمل طے کرنے کے حوالہ سے عمائدین شہر پورنیہ اور اطراف واکناف کے اہل فکرودانش پر مشتمل ایک اہم مشاورتی میٹنگ ہوئی،اس میں اوقاف کے امور سے دلچسپی رکھنے اور عملا کچھ کرنے والے ذمہ دار افراد نے ضلع بھر سے شرکت کی۔اس پروگرام کا اہتمام اراکین منتطمہ کمیٹی بی بی گمانی بیگم وقف اسٹیٹ۔259نے کیا تھا۔
علاوہ ازیں الحاج کفیل احمد قریشی،الحاج حافظ عبدالرحمن،ڈاکٹر اشتیاق،ڈاکٹر خورشید عالم، اظہر،حاجی ظفرالاسلام، امیر تبلیغی جماعت ضلع پورنیہ مولانا یعقوب،پروفیسر اسعد الحق وحیدی،الحاج منظر الاسلام،سیمانچل مدرسہ ایجو کیشن فورم کے جنرل سکریٹری مولانا اورنگ زیب کلیم قاسمی،حکیم مفتی حسنین اشاعتی،ماسٹر انوارلحق،آصف اقبال نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اپنے قیمتی تجربات ومشاہدات سے بھی شرکاء میٹنگ کو مستفیض کئے، ایڈوکیٹ صبیح احمد اور مظہر الباری کے علاوہ کئی وکلا میٹنگ کا حصہ رہے۔ منتظمہ کمیٹی بی بی گمانی بیگم وقف اسٹیٹ کے سکریٹری انجینئر الحاج غیاث الدین نے پورے ضلع اور اطراف سے لعل گوہرجمع کئے اور میٹنگ کو قابل عمل بنانے میں انہوں نے انتھک محنت کی۔
اس میٹنگ میں بی بی گمانی بیگم وقف اسٹیٹ کو درپیش مشکلات اورچیلنجوں کے حل کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی،اوقاف سے تعلق رکھنے والے کچھ سماجی وسیاسی افرادکو ایک چھت کے نیچے لاکر ان کی رہنمائی و تجربات سے استفادہ کیا گیا۔شرکاء نے ملک میں وقف قوانین،وقف سروے کی موجودہ صورت حال، تحفظ اوقاف اور وقف سے متعلق اپنے تجربات ومعلومات شیئر کئے اور بی بی گمانی بیگم وقف کے لئے ایک جامع روڈمیپ سامنے رکھا،میٹنگ میں مجموعی طور پر سامنے آئیں تجاویزات میں سے ایک یہ کہ وقف پر کام پارٹ ٹائم جاب سمجھ کر نہیں بلکہ اسے مستقل اور محنت طلب کام کے طور پر کیا جائے،وقف کو تحریک بنایا جائے،عوام میں شعور و بیداری پیدا کرنے کے لئے تحریری وتقریری طور پر مہم چلائی جائے۔دوسرے وقف کا اصل مسئلہ تجاوزات ہے، اس کے ازالہ کے لئے مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جائے اوربی بی گمانی بیگم کے وقف نامہ میں درج موضع مادھوپارہ کے علاوہ موضع چاند کوٹھی،موضع سسونا،موضع پنیاباری ارریہ،موضع موہن کنڈا،موضع حسین باغ،موضع جھنی استمرار،موضع خشکی باغ اور دیگر موقوفہ اراضیات کا پتہ لگانے اور موجودہ صورتحال جاننے کے لئے آرٹی آئی کو ہتھیار بنایا جائے۔
حضرت مولانا افتخارالزماں قاسمی ناظم جامعہ خلفاء راشدین پورنیہ نے میٹنگ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقف اسلام کا ایک اہم ادارہ ہے۔ عام طور پر صرف اس کے افادی پہلو پر نظر ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وقف اسلام کے پورے معاشی تصور اور اسلامی نظام معاشیات کا ایک بہت ہی اہم ستون بھی ہے۔ انجمن اسلامیہ پورنیہ کے صدر اعجاز محفوظ نے بی بی گمانی بیگم وقف کے تحفظ کو یقینی بنائے رکھنے میں ہر طرح کا تعاون پیش کرنے کے عہد کے ساتھ کہا کہ وقف پر بیداری کے لئے جگہ جگہ ایسے پروگراموں کی ضرورت ہے اورمیٹنگ کے شرکاء نے کام کا جو خاکہ پیش کیا ہے اس پر عملدرآمد کے لئے ایک میکنزم بنانا ہوگا۔
منتظمہ کمیٹی بی بی گمانی بیگم وقف اسٹیٹ کے صدر اور مشہور سیاسی شخصیت محمد جاوید طفیل نے کہا اراکین منتطمہ مثبت انداز میں مذکورہ وقف اراضی کے تحفظ اور بازیافت کے لئے روز اول سے کوشاں و فکرمند ہے، انہوں نے میٹنگ کی کاروائیوں پر خوشی واطمینا ن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب عوام نے یہ کام ہاتھ میں لیا ہے تو اس سے ہمیں مزیدحوصلہ و تقویت میسر ہوگی اور اس طرح تدبیر کی تعبیر سامنے آنے کی امید دوبالا ہوگی۔شہر کے معروف تاجر الحاج حافظ معین الحق نے کہا کہ امت کے اندر حوصلہ ہے پر مستقل مزاجی نہیں ہے اور یہ کام پتہ ماری چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ ہانڈی ہے جو شعلوں پر نہیں دھیمی آنچ میں پکتی ہے۔معروف سماجی کارکن و منتطمہ کمیٹی بی بی گمانی بیگم وقف اسٹیٹ کے نائب صدر مولانا سید طارق انور نے کہا کہ اوقاف کے امور ومعاملات جذبات سے نہیں بلکہ جذبہ سے حل کیا جانا ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ دولت مند افراد سماج کی کسی خاص ضرورت کی تکمیل کے لیے مال و جائداد وقف کیا کرتے تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ وقف کی جائدادیں ہندوستان میں ہیں، پورے اوقاف کا70 تا 80 فیصد حصہ وقف بورڈ کے کنڑول کے باہر ہے اور بقیہ20 تا 30 فیصد حصہ جو وقف بورڈ کے ماتحت ہے وہ بھی بد انتظامی اور بدعنوانی کا شکار ہے۔ اس لیے وقف کی حفاظت، اس کی بحالی اور اس کو بچائے رکھنا یہ پوری ملت کی ایک اہم ذمہ داری ہے اور ایک اہم فرض کفایہ ہے۔ اس کو ادا کرنے کے لیے ہم کو بہت ہی سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کرنے کا ضروری کام ہے کہ اس کے تئیں بیداری لانا، دوسرا اہم کام حکومت کے اقدامات، عدالتوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اور میڈیا میں جو گفتگوچل رہی ہے اس پر نظر رکھنا،تیسرا اہم کام ریاستی وقف بورڈوں کو فعال کرنے کی کوشش کرنا ہے۔