ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
مولانا سید جلال الدین عمری کا 26 اگست 2022 کو پونے نو بجے شب انتقال ہوگیا۔ وہ 88 برس کے تھے ۔گزشتہ برس انہیں کورونا ہوگیا تھا ۔ اس وقت سے کم زوری تھی، لیکن وہ معمول کی سرگرمیاں انجام دینے لگے تھے۔ ایک ہفتہ قبل نقاہت بڑھ گئی تب انہیں مرکز جماعت کیمپس میں قائم الشفا ہاسپٹل میں داخل کیا گیا، جہاں انھوں نے آخری سانس لی۔مولانا عمری کا شمار عالم اسلام کے ان چند ممتاز علماءمیں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف پہلووں سے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور اسلام کی تفہیم و تشریح کے لیے قابل قدر لٹریچر تیار کیا ہے۔ اسلام کی دعوت، عقائد، عبادات، معاشرت، معاملات اور سیاست پر آپ کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی ہیں۔
مولانا کی ولادت 1935 میں جنوبی ہند میں مسلمانوں کے ایک مرکز شمالی آرکاٹ کے ایک قصبے پتّگرام میں ہوئی۔ انھوں نے جنوبی ہند کی معروف دینی درس گاہ ’جامعہ دارالسلام عمرآباد‘ سے 1954 ءمیں سندِ فضیلت حاصل کی، مدراس یونی ورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی، اے (اونلی انگلش) کے امتحانات پاس کیے۔ جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد آپ مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور آگئے اور وہاں کے اصحابِِِ علم سے استفادہ کیا۔ 1956 ءمیں جماعت اسلامی ہند کے شعبہ تصنیف سے وابستہ ہوگئے۔ یہ شعبہ 1970 میں رام پورسے علی گڑھ منتقل ہوگیا اور ایک دہائی کے بعد اسے ’ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی۔ مولانا اس کے آغاز سے 2001ءتک اس کے سکریٹری تھے، اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے۔ آپ ادارہ کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہے ہیں۔ یہ مجلہ اپنی زندگی کے 40سال پورے کرچکاہے۔ اسی دوران آپ نے پانچ سال (1986 تا 1990) جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ’ زندگی نو‘ نئی دہلی کی ادارت کے فراض بھی انجام دیے۔
ملک کی متنوع دینی، ملی، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہتی ہے۔ آپ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے معزز رکن رہے۔ 1990 سے مارچ 2007 تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے۔ اس کے بعد مارچ 2019 تک اس کی امارت کی ذمہ داری نبھا ئی۔ اس کے بعد جماعت کی شریعہ کونسل کے چیرمین تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کی حفاظت ومدافعت میں سرگرم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر، شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعة الفلاح بلریاگنج، اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ تھے۔ بعض دوسرے علمی اداروں سے بھی آپ کاتعلق تھا۔
مختلف موضوعات پر مولانا عمری کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں۔ ان میں تجلیات قرآن، سیرت، معروف و منکر، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق، خدا اور رسول کا تصور۔ اسلامی تعلیمات میں، احکامِ ہجرت و جہاد، انسان اوراس کے مسائل، صحت و مرض اوراسلامی تعلیمات، اسلام اور مشکلاتِ حیات، اسلام کی دعوت، اسلام کا شورائی نظام، اسلام میں خدمت خلق کا تصور، انفاق فی سبیبل اللہ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں، کم زور اورمظلوم اسلام کے سایہ میں، غیراسلامی ریاست اور مسلمان، تحقیقات اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوش قلم کا نتیجہ ہیں۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔ عورت اسلامی معاشرے میں، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، عورت اوراسلام، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں۔ آپ کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اوربیرون ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔
مولانا کی متعدد تصانیف کے تراجم عربی، انگریزی، ترکی، ہندی، ملیالم، کنڑ، تیلگو، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں۔مولانا کی اہلیہ کا انتقال گزشتہ برس کورونا میں ہوگیا تھا ۔ ان کے پس ماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ۔
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے مولانا کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے _ وہ برابر ان کی عیادت کرتے رہے _ انتقال کی خبر سنتے ہی وہ ہاسپٹل پہنچے اور ان کے صاحب زدگان سے مل کر تعزیت کی۔