زاھدآزاد جھنڈانگری
جھنڈا نگر، 04 مئی(ایچ ڈی نیوز)۔ بڑے ہی غم و اندوہ کے ساتھ یہ افسوسناک خبر موصول ہوئی کہ عم محترم، جماعت اہل حدیث نیپال کی معروف ومشہور شخصیت، سابق نائب ناظم وخازن مرکزی جمعیت اہل حدیث نیپال نیز سابق صدر وناظم مدرسہ عربیہ مخزن العلوم السلفیہ رمول، سرہا، نیپال جناب مولانا نور محمد سلفی کا انتقال پرملال ہو گیا۔
إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأدخله فسيح جناتك ۔
موصوف کی شخصیت جماعت اہل حدیث کی قد آور شخصیت تھی، احمدیہ سلفیہ دربھنگہ اور پٹنہ سے فیضیافتہ تھے، ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ کے ہم سبق وہم درس تھے، دکتور ان کے بڑے قدر دان تھے، آخری ایام تک ان سے رفاقت برقرار رہی، ریاض میں مولانا کے صاحبزادے شرف عالم مہدی رہتے تھے دکتور برابر ان سے رابطے میں رہتے تھے اور مولانا کی خیر خبر لیتے رہتے تھے۔ عم محترم دوران طالب علمی کا واقعہ سناتے ہوئے کہتے تھے کہ دکتور ہمارے روم میٹ بھی تھے، ذہین تو تھے ہی ساتھ ہی ہوشیار بھی تھے، سبھی ساتھیوں کو سلا کر خود چادر اوڑھ کر اندر پڑھائی کرتے رہتے تھے، ان خصلتوں کی وجہ سے ہم لوگ انہیں بہت تنگ کیا کرتے تھے، لیکن دیکھ لو آج وہ کہاں پہنچ گئے اور ہم لوگ کہاں رہ گئے۔
ان خیالات کا اظہار نیپال کے معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر عبد الغنی القوفی حفظہ اللہ نے کیا
آپ نے آگے اپنے والد محترم کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے فرمایا۔ “والد محترم مولانا ثناء اللہ سلفی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھا، مجھے تعلیم کے لئے وہی پٹنہ لے کر گئے تھے، جہاں پڑھنے کے بعد میں نے جامعہ سلفیہ بنارس کا رخ کیا۔ تب مولانا نور محمد سلفی رحمہ اللہ پٹنہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ آپ کا خانوادہ قصبہ کے اہل ثروت اور مہماں نواز خانوادوں میں شمار ہوتا تھا، عام طور پر جماعت کے ذی علم افراد یا جمعیت کے ذمہ داران جب بھی تشریف لاتے قیام وطعام کا انتظام اپنے یہاں فرمایا کرتے تھے، لذیذ، خوشبودار اور عمدہ کھانوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، خطیب الاسلام جھنڈا نگری رحمہ اللہ اور جامعہ سراج العلوم کے اساتذہ جنہیں ان کی زیارت کا موقعہ ملا آج بھی ان کی ضیافت کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے۔
انہوں نے اپنی طویل زندگی میں جمعیت میں کافی نشیب وفراز دیکھے، جمعیت کی وہ نشست جس میں مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ پہلی مرتبہ بطور ناظم منتخب ہوئے انہیں کے ادارے اور سرپرستی میں منعقد ہوئی تھی۔ اس بات کا تذکرہ مولانا شمیم احمد ندوی حفظہ اللہ خود بھی مختلف مجلسوں میں کرتے رہتے ہیں۔
صدر مرکز التوحید جھنڈانگر مولانا عبد اللہ مدنی رحمہ اللہ بھی آپ کی ضیافت کے بڑے قدر دان تھے، برادر گرامی زاہد آزاد جھنڈا نگری کی اطلاع کے مطابق 1996 میں مرکز التوحید کی طرف سے مخزن العلوم رمول میں پندرہ روزہ دورہ تدریبیہ منعقد کیا گیا تھا، اور اس پوری مدت میں اکثر ہم سب کے قیام وطعام کا انتظام شخصی طور پر انہوں نے اپنے ذمہ رکھا تھا، اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ آمین
استاذ الاساتذہ مولانا اسید رحمانی رحمہ اللہ جنہوں نے ان کے ادارے میں آٹھ دہائیوں تک خدمات انجام دیں، ان کے آخری ایام تک ان کا کھانا بھی ان کے گھر سے جایا کرتا تھا، اتنی لمبی مدت تک اسطرح کے سلسلہ کو برقرار رکھنا کتنی بڑی بات ہے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
میں جب بھی گھر جاتا ضرور یاد فرمایا کرتے تھے، بڑی دیر تک اپنی زندگی کے تجربات شیر کرتے، نصیحتیں کرتے اور کہتے تھے کہ مجھے تم سے بڑی توقعات وابستہ ہیں اپنے گاؤں کے لئے کچھ کرنے کی سوچو، اپنی صلاحیتوں سے قرب وجوار کو بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرو، کچھ ایسا کر جاؤ کہ بعد میں لوگ یاد کریں۔ آپسی اختلافات اور نزاعات سے اپنے آپ کو دور اور الگ رکھو وغیرہ وغیرہ۔ آپ سے آخری ملاقات اسی ماہ رمضان میں تب ہوئی تھی جب میں سالانہ تعطیل میں گھر پہنچا، عید الفطر کے دن صلاة عید سے فارغ ہو کر سب سے پہلے محترم والد صاحب حفظہ اللہ اور چند لوگوں کی معیت میں آپ سے ملاقات کے لئے آپ کے گھر گیا، ملاقات ہوئی، کچھ دیر گفتگو بھی رہی، لیکن نقاہت زیادہ بڑھ چکی تھی، یادداشت پورے طور پر ساتھ نہیں دے رہی تھی، چچی محترمہ کے انتقال کے بعد ہی سے جو آپ کی صحت متاثر ہونا شروع ہوئی تو پھر پورے طور پر شفایابی کبھی نہ مل سکی اور اب آج ان کے انتقال کی خبر بجلی بن کر گری۔ إنا لله وإنا إليه راجعون.
اس موقعہ پر برادرم مولانا مشہود خاں نیپالی نائب صدر لمبنی مدرسہ بورڈ نیپال نے اپنے پیغام میں کہا کہ آپ کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پورا نہیں کیا جا سکتا، آپ پرانے علماء کی کڑی کا آخری سلسلہ شمار کئے جا سکتے ہیں۔ اللہ سے ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ملت اسلامیہ نیپال کو ان کا بہترین جانشین مرحمت فرمائے۔ والد محترم حفظہ اللہ نے فرمایا اس حادثہ فاجعہ نے مجھے بری طرح متاثر کر دیا ہے، یقینا اس خبر کے لئے ہم لوگ فی الحال تیار نہیں تھے، لیکن اللہ کے فیصلوں کو کون ٹال سکتا ہے، اللہ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے، گناہوں کو بخش دے، جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین۔
اخیر میں رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے، ان کے حسنات کو قبول فرمائے، ان کی سیئات سے درگزر فرمائے، علم اور دعوت کے میدان میں ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے۔ ان کے اہل خانہ اور ہم سبھی کو صبر جمیل عطا فرمائے، برادران گرامی شبلی، کملی، جوہی اور مہدی کو بطور خاص ہمت اور حوصلہ دے، ملت کو ان کا جانشین نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین