مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
دار العلوم (وقف) دیو بند کے استاذ، نامور ادیب ، بہترین صحافی ، مشہور خاکہ نگار، مایہ ناز مضمون نگار، اچھے مقرر، خلیق وملنسار، خاندانی وراثت کے امین، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بن مولانا سید ازہر شاہ بن علامہ انور شاہ کشمیری رحہم اللہ کا 11 ستمبر2022 بروز سوموار شام کے ساڑھے پانچ بجے ان کے آبائی مکان واقع خانقاہ محلہ دیو بند میں انتقال ہو گیا، کمر درد اور دوسرے اعذار تو پہلے ہی سے تھے، جس کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف تھی، لیکن یہ ایسی بیماری نہیں تھی کہ فوری بلاوے کے بارے میں سوچا جاتا، معمول کے مطابق عصر بعد ناشتہ وغیرہ کیا، بات چیت بھی کر رہے تھے، اچانک دل کے درد کی شکایت کی اور پانچ سے سات منٹ کے اندر بیماریِ دل نے ان کا کام تمام کر دیا، زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ، شریعت کا حکم تدفین میں عجلت کا ہے؛ اس لیے وارثوں نے اس کا پورا پورا خیال رکھا اور گیارہ بجے رات میں جنازہ کی نماز معہد انور میں ان کے صاحب زادہ مفتی عبید انور استاذ معہد انور نے پڑھائی اور مزارانوری کے احاطہ میں جو دیو بند عیدگاہ کے پاس ہے ، تدفین عمل میں آئی ، اسی احاطہ میں حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کے ساتھ ان کے دونوں نامور صاحب زادے ، مولانا ازہر شاہ قیصر اور حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری، ان کی اہلیہ اور خاندان کے دوسرے لوگ دفن ہیں، پس ماندگان میں اہلیہ ، پانچ لڑکیاں اور تین لڑکوں کو چھوڑا ، ایک عالم ، مفتی ، دوسرا انجینئر اور تیسرا ابھی زیر تعلیم ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی پیدائش21 ربیع الاول1382ھ مطابق 25 اگست 1962 کو دیو بند میں ہوئی، بنیادی دینی تعلیم دار العلوم دیوبند سے حاصل کرنے کے بعد دیو بند ہی میں واقع اسلامیہ اسکول کارخ کیا، لیکن دسویں کلاس تک پہونچتے پہونچتے عصری تعلیم سے طبیعت اوب گئی،چنانچہ انہوں نے دسویں کا امتحان نہیں دیا اور 1976ءمیں دا رالعلوم دیو بند میں داخل ہو کر درس نظامی کی کتابیں پڑھنی شروع کیں 1401ھ مطابق1981ءمیں حضرت مولانا نصیر احمد خان اور دیگر نامور اساتذہ سے دورہ حدیث کی کتابیں پڑھ کر سند فراغ حاصل کیا، جامعہ اردو علی گڈھ کا امتحان دے کر ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کی سند پائی، اس کا دورانیہ1973سے1975 تک رہا، اس زمانہ میں مولانا اعجاز صاحب اسلامیہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، جامعہ اردو علی گڈھ کے امتحانات کا مرکز یہیں ہوا کرتا تھا، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی کا ایک ادارہ دیو بند میں جامعہ دینیات تھا،اس کی اسناد بھی بعض یونیورسیٹیوں میں منظور تھیں، چنانچہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے1976ءمیں ادھر کا رخ کیا، اور 1978ءتک تین سال میں عالم دینیات، ماہر دینیات اورفاضل دینیات کیا، 1990ئ میں انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کر لیا، 1987ءمیں دار العلوم وقف دیو بند کے استاذ مقرر ہوئے اور دم واپسیں تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے، تدریس سے انہیں فطری مناسبت نہیں تھی، اس لیے عربی درجات کی ابتدائی کتابیں اور ترجمہ قرآن وغیرہ ان کی زیر درس رہا کرتی تھیں۔
ان کا اصلی مزاج صحافت کا تھا ، جو انہیں اپنے نامور صحافی والد مولانا ازہر شاہ قیصر سے ورثہ میں ملا تھا، مولانا بتیس ، تینتیس سال دارالعلوم دیو بند کے مدیر رہ چکے تھے، چنانچہ صحافت کے اسرار ورموز ، موثر رپوررٹنگ اور ہر قسم کے مضامین لکھنے کے طور طریقے انہوں نے اپنے والد سے سیکھااور صرف تیرہ سال کی عمر میں پہلا مضمون لکھا ، 1979ءمیں وہ پندرہ روزہ اشاعت حق کے نائب مدیر بنائے گیے، 1985ءتک اس حیثیت سے کام کرنے کے بعد مدیر کی ذمہ د اری سنبھالی اور1996ءتک اس عہدہ پر کام کرتے رہے، 1983ءمیں انہوں نے ماہنامہ ”طیب“ جاری کیا، جس کی سر پرستی ان کے نامور والد فرما تے تھے، ماہنامہ ”طیب“ کے بند ہونے کے بعد دوبارہ پندرہ روزہ اشاعت حق کو اپنی خدمات دیں، لیکن 1993 میں و ہ بھی بند ہو گیا، زمانہ دراز تک وہ ماہنامہ ندائے دار العلوم کی مجلس ادارت کے رکن رہے، ان کے مضامین ہندو پاک کے تمام مشہور وغیر مشہور رسائل وجرائد میں پابندی سے شائع ہوا کرتے تھے اور قدر ومنزلت کی نگاہ سے پڑھے جاتے تھے، انہوں نے روزنامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی میں تین سال اور روزنامہ ہمارا سماج دہلی میں دو سال کالم نگاری کا بھی کام کیا ، لیکن ان کو جو شہرت ملی وہ ان کی خاکہ نگاری تھی، ان کے خاکوں کے مجموعے میرے عہدکے لوگ، جانے پہچانے لوگ، خوشبو جیسے لوگ، اپنے لوگ ، کیا ہوتے یہ لوگ خاصے مقبول ہوئے اور ہندوستان بھر کے ادباءنے ان کی خاکہ نگاری کو پسند کیا، ہندوستان کے خاکہ نگاروں کی مختصر سے مختصر فہرست تیار کی جائے گی تو ان کا نام اس میں ضرور شامل ہوگا۔
ان کی دوسری تصنیفات میں حرف تابندہ ، خطبات شاہی، مقبول تقریریں، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم واقعات کے آئینے میں، میرے عہد کا دار العلوم، دو گوہر آبدار، شیخ انظر : تاثرات ومشاہدات، اکابر کا اختصاصی پہلو، وہ قومیں جن پر عذاب آیا، اسلام اور ہمارے اعمال ، اعمال صالحہ، اسلامی زندگی، اور اق شناشی کل بائیس کتابیں بشمول خاکوں کے مجموعے مشہور اور معروف ہیں، ان کے علاوہ ان کے ریڈیائی نشریات ہیں، انہوں نے مرکز نوائے قلم قائم کیا، جس میں طلبہ کو مضمون نویسی سکھائی جاتی تھی ،د ار العلوم وقف میں جب شعبہ صحافت قائم کیا گیا تو وہ اس کے ذمہ دار قرارپائے۔
مولانا مرحوم” فقیری“ میں ”شاہی“ کے قائل تھے، ان کے گھر میں آرائشی زیب وزینت کے سامان کم تھے، چٹائی پر سادگی کے ساتھ بیٹھ جانے میں ان کوتکلف نہیں تھا، سادہ زندگی گذارنے کے عادی تھے، ان کے یہاں لباس کا وہ رکھ رکھاو¿ بھی نہیں تھا، جو ان کے چچا محترم اور چچازاد بھائیوں کا امتیاز تھا، ان کا مزاج شاہانہ اس وقت سامنے آتا، جب کوئی مہمان آجاتا، عمدہ قسم کی ضیافت کرتے، خواہش ہوتی کہ ان کے سامنے بہت کچھ پیش کریں، مزاج کا یہ شاہانہ پن ان کے مضامین اور کالموں میں بھی جھلکتا، نثر میں پر شکوہ الفاظ اور ادبی صنعتوں کا استعمال خوب کرتے، لیکن آمد ہی آمد ہوتی، پر تکلف آورد کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا، واقعہ یہ ہے کہ ان کی خوبصورت نثر قاری کو اس طرح گرفت میں لے لیتی ہے کہ وہ ان کا مداح اور کتاب ختم کیے بغیر آزاد ہو ہی نہیں سکتا۔
مولانا دور طالب علمی میں ہمارے ہم عصر تھے،درسی اعتبار سے ایک سال سینئر تھے اور سندی عمر کے اعتبار سے کم از کم مجھ سے چار سال بڑے، لیکن بے تکلفی کبھی نہیں رہی، مجھے ان کی قہقہہ زار مجلسوں میں باریابی کے مواقع بھی کم ہی ملے، البتہ 1980 میں بعد نماز عصر سے مولانا ازہر شاہ قیصر کے دربار میں مغرب تک میری حاضری ہوتی تو مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی اس مجلس میں شریک رہتے، موقع عربی ششم کے سال میری پہلی تصنیف ”فضلاءدار العلوم اور ان کی قرآنی خدمات“ پر تصحیح کا ہوتا، اس کتاب پر مقدمہ حضرت مولانا سید انظر شاہ نے لکھاتھا، اور پیش لفظ مولانا ریاست علی بجنوری نے، لیکن طالب علمانہ تحریر کو حرفا حرفا پڑھ کر اصلاح کاکام مولانا مرحوم کے والد گرامی قدر نے کیا تھا، اور اس کے لیے کئی ہفتے تک عصر تا مغرب میری حاضری ہوتی رہی تھی، ظاہر ہے اس مجلس میں گھلنے ملنے اور مولانا کی بذلہ سنجی سے مستفیض ہونے کا کوئی موقع نہیں تھا، افتاءکے بعد بہار آگیا تو دیو بند آنا جانا ہی کم ہو گیا اور بہت ملاقات کا موقع نہیں مل سکا۔مولانا اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، انہوں نے بڑی اچھی زندگی گذاری اور اچھی موت پائی، طاب حیا وطاب میتا، اسی کو کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین