ماہ رمضان گزرنے اور عید الفطر منانے کے بعد فرائض اور شعائر اسلام سے دوری ایمانی کمزوری کا نتیجہ ہے: مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی
سدھارتھ نگر،13 اپریل(ایچ ڈی نیوز)۔
صیام رمضان رکن اسلام ہے، ماہ رمضان افضل اور مبارک مہینہ ہے،اس میں اہل اسلام کی اکثریت مساجد کا رخ کرتی ہے ،صیام و صلوات اور قیام رمضان کا اہتمام کرتی ہے اور دیگر کار خیر اور اعمال صالحہ کی طرف ان میں رغبت پیدا ہوتی ہے، مگر یہ امر معلوم و مشاہد ہے کہ اختتامِ رمضان اور عید الفطر منانے کے بعد پھر ان کی اکثریت مساجد سے دور ہو جاتی ہے اوراپنی پرانی روش اور غفلت کی طرف لوٹ جاتی ہے، جنہوں نے رمضان کی اہمیت اور صیام و قیام کی فضیلت اور اللہ کے اجر عظیم کی لالچ میں اپنے اندر ایک خوشگوار تبدیلی کا ثبوت دیا ہوتا ہے وہ پھر ایک فرائض و شعائر اسلام اور مستحب اعمال سے غفلت نیز ترک صلاۃ کی پرانی روش کی طرف لوٹ جاتے ہیں،پھر مساجد میں مصلیوں کی تعداد گھٹ جاتی ہے ،صلاح و تقوی کا کوئی اثر بظاہر نظر نہیں اتا ہے ،یہ بہت افسوسناک صورت حال ہے، وہی ایمانی کمزوریاں اور اس کے مظاہر عام ہوتے ہیں۔ جب کہ صوم کی غایت یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر تقوی و طہارت، حسن عمل اورمشروع اعمال خصوصاً فرائض و شعائر دین پر عمل اور ثبات و دوام ہو۔ عمل صالح وہی افضل اور بہتر ہوتا ہے جس میں مداومت برتی جائے خواہ عمل قلیل ہو، اللہ کے نزدیک اجر و ثواب کی طمع میں عمل صالح میں بڑھوتری اور اس پر ہمیشگی پیدا ہونی چاہیے، ثبات و استقامت کا مظاہرہ ہونا چاہیے اور یہ دعا پڑھنی چاہئے:
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هديتنا وهب لنا من لدنك رحمة إنك أنت الوهاب
اور دعاء نبوی بھی پڑھتے رہنا چاہیے
يا مقلب القلوب ثبت قلوبنا على دينك ،
اور ظاہر میں رمضان کا اثر ہم پر نظر انا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے،ایک امت کی حیثیت سے یہ امت بے وزن اور بے وقار اور ذلیل و خوار ہے اور رحمت الہی سے دور ہے۔ رمضان میں صلوات مفروضہ کی پابندی اور اس کے خاتمہ کے معا بعد اس سے غفلت و دوری، رمضان میں مساجد سے رشتہ کی استواری اور بعد رمضان ہی عمدا صلاۃ سے مجرمانہ غفلت اور مساجد کی آبادی سے بیزاری دین اور شعائر اسلام کو لہو لہب بنانا ہے۔
ہمیں اسلام کے جملہ ارکان کی پابندی کرنی چاہیے اور اللہ تعالی سے تعلق پختہ رکھنا چاہیے۔
اللہ ہم سب کو توفیق دے۔آمين والله الموفق.
