January 26, 2025
Hamari Duniya
Breaking News قومی خبریں

ہجومی تشدد کے خلاف پارلیمنٹ میں سخت قانون لایا جائے

Maulana Arshad Madani:

اب وقت آگیا ہے کہ سیکولر جماعتیں قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائیں: مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی،22جون(ایچ ڈی نیوز)۔
جمعیة علماءہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے چھتیس گڑھ اور علی گڑھ میں ہجومی تشدد کے واقعات پر گہرے دکھ اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ مولانا نے کہا ہے کہ اگرچہ موجودہ لوک سبھا انتخابات میں ملک کے بیشتر لوگوں نے فرقہ پرستی اور نفرت کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے، لیکن اس کے باوجود فرقہ پرستوں نے گزشتہ چند برسوں سے لوگوں کے دل و دماغ میں نفرت کا جو زہر بھر رکھا ہے، مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ اور علی گڑھ کے یہ واقعات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرپسندوں نے ایک بار پھر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرکے انسانیت کو داغدار کیا ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود اس طرح کے اندوہناک واقعات کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ وہیں 17 جولائی 2018 کو سپریم کورٹ نے ایسے واقعات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ عدالت نے مرکز کو ہدایت دی تھی کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے الگ قانون بنائے۔ اب اگر اس کے بعد بھی ایسے غیر انسانی واقعات ہو رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں انہیں قانون کا کوئی خوف نہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر وہ پکڑے بھی گئے تو ان سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود پارلیمنٹ میں کوئی الگ قانون نہیں لایا گیا۔ چند ریاستوں کو چھوڑ کر، کسی نے بھی ہجومی تشدد کے خلاف قانون نہیں بنایا۔
قابل ذکر ہے کہ کچھ دن قبل چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور کے قریب ارنگ نامی جگہ پر بدمعاشوں کے ایک گروپ نے جانوروں سے لدے ٹرک کو روکا اور ڈرائیور اور دیگر دو نوجوانوں کو اس قدر مارا پیٹا کہ ان کی موت ہوگئی۔ ان کا تعلق اتر پردیش کے سہارنپور اور شاملی اضلاع سے ہے۔ ان میں سے ایک کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ دوسرے کی ہسپتال پہنچنے پر موت ہو گئی۔ ان کے نام چاند میاں اور گڈو خان ہیں۔ جبکہ تیسرا نوجوان صدام خان بھی بعد میں دوران علاج دم توڑ گیا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہجومی تشدد ایک سماجی نہیں بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں اس کے خلاف کھل کر سامنے آئیں اور حکومت پر ہجومی تشدد کے خلاف قانون بنانے کے لیے دباو¿ ڈالیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تازہ ترین واقعہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نہ تو مرکز اور نہ ہی ریاست ہجومی تشدد کو روکنے میں سنجیدہ ہے۔ بدلے ہوئے سیاسی حالات میں سیکولر جماعتوں کو اس کے خلاف پوری قوت سے آواز اٹھانی چاہیے۔

Related posts

ملک سے نفرت کے خاتمہ کیلئے فرقہ پرستوں کے خلاف جنگ چھیڑے گی جماعت اسلامی، پیش کیا چارسالہ منصوبہ

Hamari Duniya

امریکی کاروباری کے ذریعہ وزیراعظم کو غیر جمہوری قراردینا خطرناک،وزیرخارجہ ایس جے شنکر برہم

Hamari Duniya

آنجہانی کانگریس لیڈر رام بابو شرما کی 14ویں برسی پر خراج عقیدت

Hamari Duniya