عبدالغفار سلفی، بنارس
کل بیماری کی خبر آئی آج انتقال کی خبر آ گئی. دنیا بھی عجب سرائے فانی ہے. سب کو پتہ ہے کہ یہ عارضی ٹھکانہ ہے پھر بھی لوگ اس بے وفا سے دل لگائے بیٹھے ہیں. انسان کی موت ہی اس جہاں میں ایک ایسی چیز ہے جو سب سے زیادہ یقینی اور قطعی ہے اور سب سے زیادہ ناپائیدار اور غیر یقینی چیز زندگی ہے. پھر بھی لوگ زندگی کے لیے تو ہزاروں جتن کرتے ہیں، پلاننگ کرتے ہیں لیکن موت اور اس کے بعد کی زندگی سے یکسر غافل رہتے ہیں. اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے.
جانا تو ایک دن سب کو ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی اپنے حسن سیرت و کردار کی چھاپ چھوڑ کر جاتا ہے اور کوئی خس کم جہاں پاک کے مانند اپنے وجود سے دنیا کو پاک کر کے رخصت ہوتا ہے .. ماسٹر صاحب ان لوگوں میں سے تھے جن کی پوری زندگی تعلیم و تعلم، درس و تدریس اور علم و علماء کے درمیان گزری ہے.. جامعہ سلفیہ میں ہمارے دور طالب علمی میں انگریزی کے سب سے سینیر استاذ ماسٹر صاحب ہی تھے. عموماً مدارس میں ماسٹروں کی شناخت مولویوں سے الگ ہوتی ہے. ان کا کلین شیو چہرہ اور لباس گواہی دے دیتا ہے کہ یہ ماسٹر ہیں. لیکن ماسٹر احمد حسین صاحب حلیے سے ماسٹر کم مولوی زیادہ لگتے تھے. لمبی شرعی داڑھی، سفہد کرتا پاجامہ، لمبی گاندھی ٹوپی، مسکراتا چہرہ، سنجیدگی اور متانت ماسٹر صاحب کی پہچان تھی. درس کے دوران بھی اور درس کے باہر بھی ایک مخصوص استاذانہ وقار اور سنجیدگی ہمیشہ ماسٹر صاحب کی شخصیت کا جزو لازم رہی.
ماسٹر صاحب اپنے شاگردوں سے بھی اس تپاک سے ملتے تھے کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ استاذ و شاگرد کا رشتہ ہے. تدریس صرف کتاب پڑھانے کا نام نہیں ہے، ایک مدرس اپنے شاگردوں کا صحیح معنوں میں خیر خواہ ہوتا ہے.. ماسٹر صاحب اپنے شاگردوں کی خیر خواہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے. درس کے دوران بھی اور کلاس روم کے باہر بھی وہ اپنے شاگردوں کے استاد کم ان کے دوست اور خیر خواہ زیادہ معلوم ہوتے تھے. مجھے نہیں معلوم کہ کبھی کسی شاگرد کے منھ سے ان کے متعلق کوئی نا مناسب جملہ سنا. وہ حقیقی معنوں میں ہردلعزیز تھے.
ماسٹر صاحب جامعہ رحمانیہ میں سرکاری ٹیچر تھے، ان کے دور میں جامعہ کا ثانویہ تک کا مرحلہ جامعہ رحمانیہ کی ماتحتی میں چلتا تھا. ماسٹر صاحب کو ہمیشہ شکوہ شکایت سے دور پایا. نہ کبھی معاصرین سے ان کی چشمک رہی نہ شاگردوں کے ساتھ کوئی تلخی رہی. تدریس کے میدان میں تین دہائیاں گزار کر اپنے کردار کو یوں محفوظ رکھنا بھی بڑی بات ہے.
فراغت کے بعد بھی کبھی جامعہ جانا ہوتا اور ماسٹر صاحب نظر آ جاتے تو سلام میں پہلے کرنے کا شرف خود ہی حاصل کر لیتے. خیر خیریت پوچھتے. ان کی گفتگو کا ٹھہراؤ، ان کے چہرے کی مسکراہٹ آج بھی بے ساختہ یاد آتی ہے. نماز میں بھی آپ ہمیشہ جامعہ کی مسجد میں صف اول میں پائے جاتے.
اللہ تعالیٰ ماسٹر صاحب کو اپنی رحمتوں میں جگہ دے، لغزشوں سے درگزر فرمائے، پسماندگان اور ہم شاگردوں کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین