ایران کلچرہاوس میں’استقامت کی راہ میں:اولاد فاطمہ سے فرزندخمینی تک‘عنوان سے عظیم الشان بزم مقاومت کا انعقاد
نئی دہلی،04جنوری (ایچ ڈی نیوز )۔
جگرگوشہ رسول حضرت فاطمہ زہرہ کی ولادت باسعادت اوربانی انقلاب اسلامی امام خمینی کے روز پیدائش کے موقع پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فاتح جنرل قاسم سلیمانی کی یاد میں یہاں ایران کلچرہاوس میں’استقامت کی راہ میں: اولاد فاطمہ سے فرزند خمینی تک‘ کے عنوان سے عظیم الشان بزم مقاومت کا انعقاد کیا گیا جس میں علماءکرام نے امام خمینی کی مثالی شخصیت اور ان کی رہنمائی میں ایرانی قوم کی جدوجہد کو سلام کرتے ہوئے موجودہ وقت کے ایران کوعالم اسلام کے لئے نمونہ عمل قرار دیا۔ بزم کا آغازقاری محمدیاسین نے تلاوت کلام پاک سے کیا اوراستقبالیہ کلمات کلچرل کونسلر ڈاکٹر فرید الدین فرید عصرنے ادا کئے۔ بعد ازاں معروف شعرائے کرام نے بارگاہ ممدوحین میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر کثیرتعداد میں مردو خواتین کے ساتھ طلباءموجود تھے۔
کلچرل کونسلر ڈاکٹر فرید الدین فرید عصرنے اپنے خطاب میں کہا کہ آج حضرت فاطمہ زہرا کا روز ولادت ہے اور اس سلسلے میں یہ بزم سجائی گئی ہے،آپ کی شان میں سورہ کوثر نازل ہوا اوراللہ نے بی بی زہرا کے حوالے سے پیغمبر اسلام کو جو نسل کثیر عطا کی اس کے جو مصادیق ہیں ان میں سے ایک مصداق بارض ہے وہ امام خمینی کی ذات گرامی ہے جوآپ کی ہی نسل سے معاصرعہد میں ایک انتہائی غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے انقلاب اسلامی کی شکل میں ایک ایسا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا کہ آج بھی دنیا حیران ہے کہ 4 دہائی گزرجانے کے بعد بھی انقلاب اسلامی کو متاثرکرنے کیلئے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بعد بھی ناکام رہیں۔ انہیں امام کے نام پر بھی یہ بزم سجائی گئی ہے۔ بانی انقلاب کی تحریک اور نظریئے کی توضیح کرتے ہوئے ڈاکٹر فرید نے کہا کہ انقلاب اسلامی سے 15 برس قبل جب امام خمینی کو ایران کی فاسد پہلوی حکومت کے ذریعہ باربار گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا جاتا تھا اس وقت امام خمینی سے پوچھا گیا کہ آپ کس کے بھروسے کھڑے ہورہے ہیں، آپ کے سپاہی کہاں ہیں اور آپ کے لوگ کون ہیں تو امام خمینی نے جواب دیا تھا کہ میرے لشکری ابھی گہوارے میں اور ماوں کی آغوش میں ہیں وہ جب جوان ہوں گے تو ہمارے لشکر کے لئے کام کریں گے چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج وہی نسل بلکہ ان کے بچے امام کے نظریئے اور ان کی تحریک کو قائم ودائم رکھنے میں ایک لمحہ بھی کوتاہی نہیں برت رہے ہیں۔ آج انقلاب جس طرح پروان چڑھاوہ انہیں سپاہیوں اورلشکریوں کا نتیجہ ہے جس کو امام نے آج سے تقریباً 55 برس پہلے اپنا لشکری اورحامی بتایا تھا۔ ایران کے کلچرل کونسلر نے کہا کہ امام خمینی کے نظریہ استقامت ،مقاومت اور مزاحمت کے مکتب کے شاگرد شہید قاسم سلیمانی ہیں جن کی قدرو منزلت کی آج دنیا بھی معترف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران سے لے کر یونان تک دنیا میں جہاں بھی تمدن اورسماجیت کی تاریخ ہے اس میں کہیں بھی جب مدینہ فاضلہ کی تاریخ کی بات ہوتی ہے توعام طورپر امیر شہر یا اس کے پاسدار اور محافظ پر توجہ زیادہ ہوتی ہے اور اچھا پاسدار شہر وہ ہے کہ جونہ صرف یہ کہ دشمنوں پر بہت سخت گیر، بیباک اور شجاع ہو بلکہ اس کے اندر حسن تدبیر، رحم دلی پائی جاتی ہو جیسا کہ قرآنی اصطلاح میں وہ دشمن کے تئیں بہت سخت گیر ہوتے ہیں مگر اندر سے و ہ رحم دل اوربہت زیادہ مہربان مزاج کے ہوتے ہیں اور جب محافظ ملک یا محافظ شہر میں یہ دونوں صفات ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو وہ قاسم سلیمانی بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید سلیمانی بہت زیادہ سادہ مزاج اور سب کے درمیان گھل مل کررہتے تھے جس کی وجہ سے تشخیص مشکل ہوتی تھی کہ دنیا کے ایک اہم ملک کی عظیم فوج کے سربراہ ہیں۔ مسٹر فرید عصر نے کہا کہ شاید اسی خصوصیت کا نتیجہ تھا کہ انہیں تاریخ ساز مقبولیت کے ساتھ عوام کی محبتیں ملیں اور انہیں زیادہ عظمتیں میسر آئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب کبھی اعلان ہوجاتا تھا کہ آج جنرل خود لڑنے کے لئے محاذ پر آنے والے ہیں تو دشمن کے لئے یہ خود بڑی خبر ہوتی تھی اور وہ پیچھے ہٹتا نظر آتا تھا کہ آج فوج کے چیف قیادت کررہے ہیں۔ ڈاکٹر فرید نے کہا کہ قاسم سلیمانی کو ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید کیا گیا مگراس دہشت گردی کا شکار ہونے سے ان کی شخصیت ختم نہیں ہوئی بلکہ آفاقی ہوگئی اورایک نظریئے کے طور پر ابھری جو آج ایک مکتب فکر کے طور پرجانی گئی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے دہشت گردانہ حملے اکثر نظریئے اور شخصیت کو نشانہ بناکر کئے جاتے ہیں، کسی شخص کو نہیں شخصیت کو مارا جاتا ہے اور یہ زیادہ خطرناک اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔
شیعہ جامع مسجد کشمیری گیٹ کے امام جمعہ مولانا محسن تقوی نے تینوں موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے نامساعد حالات میں دین اسلام کے لئے غیر معمولی انقلابی خدمات کو حضرت فاطمہ زہرا کی سیرت کا خصوصی امتیاز ، امام خمینی اور شہید قاسم سلیمانی کی زندگی کو اسی کا اتباع قرار دیا۔ ڈاکٹر عزیز مہدی، اصغر الحیدری، مجاہدی نےاردو فارسی میں موضوع سے متعلق اشعار پڑھے جبکہ مہدی باقر خان نے اپنے اردو فارسی اشعار کے ساتھ ترجمہ و نظامت کے فرائض انجام دئے۔ میلاد مسعود میں معزز شخصیات کے علاوہ کثیرتعداد میں عقیدتمندوں نے شرکت کی۔