بقائے باہمی، بھائی چارہ اورتصوف کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں عظیم صوفی خطیب علامہ مفتی کتاب الدین رضوی کا خطاب
نئی دہلی، 25 اکتوبر(ایچ ڈی نیوز)۔
بقائے باہمی، بھائی چارہ اور تصوف کے عنوان سے آج یہاں دہلی کے کناٹ پلس واقع خانقاہ عبدالسلام میں منعقدہ ایک کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے وقت کے عظیم صوفی اسکالر علامہ مفتی کتاب الدین رضوی استاذ جامعہ عارفیہ سید سراواں، کوشامبی نے کہاکہ اللہ نے جب سے انسان کو بنایا ہے تب سے لے کر آج تک اور جب تک انسان اس زمین پر رہے گا ہمیشہ ہمیش وہ اپنی ضروریات کیلئے ایک دوسرے کا محتاج رہے گا، اسی لئے کہاگیا ہے کہ چمن میں پھول یک رنگی نہیں ہوتے۔ انہوںنے کہاکہ روٹی کپڑا اور مکان یہ انسان کی بنیادی ضرورت ضرور ہے، لیکن اس کیلئے بھی انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ انہوںنے کہاکہ بقائے باہمی اور بھائی چارہ ایک دوسرے کے لازمی عناصر ہیں اور ایک کے مفقود ہونے کی صورت میں دوسری چیز خود بہ خود مفقود ہوجاتی ہے اور ایک کے وجود کی صورت میں دوسری چیز خود بہ خود موجود ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہی صورت ہمارے آئین کی بھی ہے جس کی شروعات ’ ہم بھارت کے لوگ‘ سے ہوتی ہے۔ لوگ اجتماعی سطح پر حلف لیتے ہیں باجود اسکے کہ بہ ظاہر وہ انفرادی حلف لے رہے ہوتے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ جب آدمی نماز میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو باوجود اس کے کہ وہ اپنی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، لیکن مالک کے سامنے نعبد اور نستعین کی صورت میں وہ عرض گذار ہوتا ہے ۔ مفتی کتاب الدین رضوی نے کہاکہ آج تصوف حقیقی کی بے حد ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جیسے دین کے دوسرے شعبوں میں خرابیاں آئیں، اسی طرح تصوف میں بھی خرابی آئی اور لوگ تصوف اسواق اور ارزاق کو ہی تصوف حقیقی سمجھنے لگے ،جبکہ تصوف حقیقی یہ ہے کہ آدمی کا عقیدہ بالکل درست ہو یعنی وہ ربوبیت ، الوہیت اور اسماء وصفات کی مکمل پاسداری کرنے والا وہ اور اس کا یہ کامل یقین ہو کہ حقیقی مرشد اور حقیقی مربی اللہ کی ذات ہے اور باقی چیزیں اس کی معرفت کا ذریعہ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جب آدمی اپنے قلب کو توحید کے زیور سے آراستہ کرلے تو پھر ضروری یہ ہے کہ وہ اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنے باطن کو اس طرح ٹھیک کرے کہ اس کے آثار اس کے ظاہر پر نمایاں ہوں اور جب یہ دونوں چیزیں ہوجائیں گی تب انسان من کان للہ کان اللہ لہ کا حقیقی مظہر ہوگا اور وہ اپنی ذات سے پھر کسی کو تکلیف نہیں پہونچائے گا اور ہر چیز اس کو بہتر نظر آئے گی اور لوگوں کو مالک کے پیغام کی طرف بلائے گا۔ انہوںنے کہاکہ انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر انسان کو اپنے بہتر سے سمجھے اور ہر مومن کے بارے میں خیر کا گمان رکھے ۔ لوگوں کو مالک کے پیغام کی طرف بلائے اور خود کو محاسن سے لیس کرے۔
واضح رہے کہ پروگرام کی سرپرستی وقت کے عظیم صوفی بزرگ حضور داعی اسلام شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمد ی صفوی سجادہ نشین خانقاہ عارفیہ سید سراواں کوشامبی نے کی جبکہ صدارت شاہ محی الدین فریدی چشتی نے کی اور میزبانی کا فریضہ سید وکیل احمد فخری نے انجام دیا۔ کلمات تشکر شیخ حسن سعید صفوی ازہری نے پیش کئے ۔ پروگرام کا انعقاد علی سعید کی سربراہی میں کیاگیا جس میں پروفیسر فیض اللہ ، مولانا شوکت، شکیل احمد ، راحل معبود ، مغیث احمد، مولانا ناظم اشرف، حامد، ظہیر احمداور افضل نے رضاکارانہ خدمات انجام دیں اور نظامت کا فریضہ وطن سماچار کے چیف ایڈیٹر محمد احمد نے انجام دیئے ساتھ ہی کافی بڑی تعداد میں عوام نے شرکت ۔