خیرآباد /سیتاپور/(سعید ہاشمی ) : خیرآباد کی مشہور سماجی و ادبی تنظیم خیرآباد فاؤنڈیشن نے ہاشمی انٹرنیشنل ٹورز اینڈ ٹریولز لکھنؤ کے اشتراک سے گزشتہ شب ایک عظیم الشان سیمینار، مشاعرہ اور کوی سمیلن بعنوان “خیرآباد کے غیر مسلم شعراء کے نام ایک شام” کا انعقاد کیا. یہ مشاعرہ قصبہ کے محلہ شیخ سرائے میں واقع درگاہ حضرت بڑے مخدوم صاحب کے مشرقی ہال میں منعقد ہوا۔ جس میں ملک کے تمام نامور شعراء کرام نے شرکت کی۔ اور اپنی بہترین شاعری سے حاضرین کی داد حاصل کی۔ پروگرام کا افتتاح لکھنؤ سے مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لائی بیگم شہناز سدرت نے کیا اور قدیم شری بہاری جی مندر، ماکھوپور کے مہنت شری کرشناچاری، جنہوں نے قصبے سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی، نے شمع روشن کر کے پروگرام کا افتتاح کی۔ اس کے بعد بیگم شہناز سدرت کو تنظیم کی جانب سے مہنت شری کرشنا چاری اور شعیب میاں سجادہ نشین درگاہ حضرت بڑے مخدوم صاحبؒ نے مشترکہ طور پر خواتین کو بااختیار بنانے کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے پر بیگم حضرت محل اعزاز سے نوازا۔
اس دوران بیگم شہناز سدرت نے کہا کہ خیرآباد ہمیشہ سے ہی ہندوستان بھر میں اپنی گنگا جمنی تہزیب کے لیے جانا جاتا ہے اور اس پروگرام کے ذریعے آج اس کی ایک اور مثال دیکھنے کو ملی ہے۔ اس کے بعد مہمان اعزازی سماجی کارکن سعید ہاشمی کو سعدیہ فاروقی کے بدست ،،جنبش خیرآبادی،، ایوارڈ سے نوازا گیا۔ شعراء اور سامعین سے خطاب کرتے ہوئے کرشنا چاری جی نے کہا کہ اس طرح کے ادبی پروگرام ہمیں اپنی روایات سے جڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج کا پروگرام اس لیے بھی بہت اہم ہے کہ آج ہم نے اپنی بستی کے ان شعراء کو یاد کیا ہے جن کو آج کی نسل پوری طرح سے جانتی بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد تنظیم کے صدر سید ضیاء علوی نے تمام حاضرین کو تنظیم کے اغراض و مقاصد اور کاموں سے آگاہ کیا اس کے بعد قصبہ کے معروف مصنف فرید بلگرامی نے خیرآباد کے غیر مسلم شعراء کی تاریخ پر ایک بہترین مضمون پیش کیا۔ اس تنظیم نے ڈاکٹر شویتا سریواستو لکھنؤ، مونیکا اروڑا دہرادون، ڈاکٹر سدھا مشرا لکھنؤ، رام پرکاش بیخود لکھنؤ، شہباز طالب لکھنؤ، سنجے ہمنوا لکھنؤ، اقبال بسوانی بسوان، جانی لکھنؤی، عتیق فتحپوری، ظہیر کانپوری، ابھشریشٹھ مشرا، محمد ارشد کو ادبی خدمات کے لیے اعزازات سے نوازاـ اس موقع پر سعد فاروقی اور سعدیہ خان کو تنظیم کا نائب صدر بھی منتخب کیا گیا۔ اس سب کے بعد مشاعرہ اور کوی سمیلن شروع ہوا۔ پروگرام کی صدارت لکھنؤ سے تشریف لائے ہوئے عالمی شہرت یافتہ شاعر رام پرکاش بیخود نے کی اور اس کی نظامت کے فرائض معروف شاعر اور ناظم مشاعرہ شہباز طالب نے انجام دیئے۔
تمام شعراء اور شاعروں کی منتخب تخلیقات درج ذیل ہیں:-
رسم الفت میں وفاؤں کا صلہ دیتا ہے۔
روٹھ کر مجھ کو وہ ہر بار سزا دیتا ہے۔
مونیکا اروڑا
منجمد تھا جب راوانی سے الگ رکھا گیا۔
تھا تو پانی پھر بھی پانی سے الگ رکھا گیا۔
رام پرکاش بیخود
تیرے کمال میں میرا کمال شامل ہے۔
کمال یہ ہے کہ اس میں میرا کمال نہیں.
ظہیر کانپوری
غزل کاری مرض ہے شاعروں کو کون سمجھائے.
یہ پاگل ہو چکے ہیں پاگلوں کو کون سمجھائے.
شہباز طالب
ان کے علاوہ سنجے مشرا ہمانوا، ڈاکٹر شویتا سریواستو، معین علوی خیرآبادی، حافظ مسعود محمودآبادی، راجندر رناک، وویک مشرا راج خیرآبادی، افضل یوسف، اقرار خیرآبادی، ابھشریشٹھ مشرا، عتیق فتحپوری، جانی لکھنوی، سدھا مشرا، دلیپ ورما دل بارہ بنکوی، سید ضیاء علوی نے ایک سے بڑھ کر ایک کلام پیش کرکے حاضرین کو واہ واہ کرنے پر مجبور کردیا۔ اور خوب داد وصول کی آخر میں سجادنشین شعیب میاں نے کہا کہ اس طرح کے ادبی پروگرام ہمارے شہر کی ادبی شناخت کو زندہ رکھتے ہیں جس کے ذریعے اہلیان شہر خیرآباد کے شاندار ماضی سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ مشاعرہ میں پنیت سنگھ، محمد ندیم، رام سمرن شرما سینئر صحافی، ارشد اقبال ببو، مینک واجپائی، انکت گپتا، آلوک واجپائی، سرکار عالم، اسمار الحق، شبلی عزیز، حارث عزیز، سلمان خان، فہیم احمد، ثمر، سلمان صدیقی، فدا، محمد شعیب، محمد الطاف سمیت سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی، آخر میں تنظیم کے صدر سید ضیاء علوی نے تمام مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔