JIH Seminar
نئی دہلی، 13اگست:انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی اور شعبہ تحقیق و تصنیف جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی کی جانب سے ایک سمینار بعنوان ’’ جدید ہندوستان کی تشکیل اور تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری‘‘ منعقد ہوا۔ اس موقع پر سیمنار کی صدارت کرتے ہوئے انجینئر محمد سلیم، نائب امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ مسلمان جس قسم کے جدوجہد میں بھی حصہ لیتا ہے،جس قسم کے مومونٹ کا بھی وہ حصہ ہوتا ہے،اس میں اس کا رول اس کے عقیدے اور اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوتا ہے۔اس کے رویہ، اس کے ایکشن اور اس کے عمل پیچھے اسلامی تعلیمات ہوتی ہیں۔اسلام خود ایک مومنٹ ہے ایک تحریک ہے،اور اگر اس بات کو موجودہ زبان میں بیان کیا جائے تو اسلام خود ایک فریڈم مومنٹ ہے۔جو ہر زمانے میں نبیوں کے ذریعہ سے سماج میں چلایا گیاہے۔وہ ایک لبریشن مومنٹ ہے،جس کا مقصد انسانوں کو آزادی دلانا ہے۔یہ خود ایک بہت بڑا ظلم اور بڑی نا انصافی ہے کہ انسانوں کو انسان مختلف حیثیتوں سے غلام بنائیں۔
JIH Seminar
ہم جانتے ہیں کہ انڈین ہسٹری کو لکھنے میں انگریزوں نے اپنا مفاد سامنے رکھاتھا۔اور اس کی بنیادی وجہ ملک کے تمام طبقات نے مل جل کر جدوجہد آزادی میں جو کردار ادا کیا تھا وہ انگریزوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا۔لہذا اس اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش مختلف صورتوں کے علاوہہسٹری لکھنے سے بھی کی گئی ہے۔ دوسری جانب موجودہ برسراقتدار حکومت ایک بار پھر ہسٹری کو دو بارہ لکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔اور یہ دوبارہ لکھنے کا کام بھی متعصبانہ رویہ کے ساتھ انجام دیا جارہا ہے۔لیکن چونکہ ہسٹری کو پڑھنے کا اور اس پر غور کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو بہتر انداز میں دیکھ سکیں۔بصیرت پیدا ہو اور آگے کے لیے بہتر منصوبہ سازی کا عمل کیا جاسکے۔تاکہ ایک جامع ثقافت کے ساتھ ،محبت اور اعتماد کاماحول جو1857کے زمانے میں تھا، وہ بحال کیا جاسکے،اس لیے ضروری ہے کہ ہسٹری نہ پر نہ صرف نظررکھی جائے بلکہ آزادی سے پہلے اور بعد کے حالات کو صحیح اور درست دلائل و شواہد کے ساتھ ہسٹری کا حصہ بنایا جائے،لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
JIH Seminar
سیمنار میں چار مقالے پڑھے گئے۔پہلا مقالہ تاریخ نگار اور مصنف سید عبید الرحمن نے “تحریکِ آزادی ہند میں علما کا کردار”عنوان پرپڑھا۔جس میں ہندوستان میں کی جدوجہد آزادی میں مسلمان علماء کے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بنگال مںز فریزی تحریک(فریزی مومینٹ) جو حاجی شریعت اللہ کی طرف سے شروع کی گئی تھی اور ان کے بٹیر محمد محسن نے، جسے عام طور پر دودو مااں کے نام سے جانا جاتا ہے، 19ویں صدی کے اوائل اور وسط مںل مسلم احای کی سب سے طاقتور تحریکوں مںت سے ایککا تذکرہ کیا۔ساتھ ہی 1857 کی بغاوت مں مسلمانوں نے بالخصوص مسلم علماء نے سب سے اہم کردار ادا کاط۔ وہ بغاوت کے معمار تھے اور درحققتک مرحٹھ، دہلی، بریید، لکھنؤ، الہ آباد، کانپور، شاہجہاں پور اور شمالی ہند کے بشترا علاقوں سے انہوں نے قایدتکی اور لڑائی لڑی۔1857 کی جنگ آزادی کے دوران برطانوی جرنلو ں مںی خوف کا احساس پدہا کرنے والے ایارورمشہور عالم و جنگجو مولوی احمد اللہ شاہ ایسے ہر و تھے جنہوں نے انگریزوں کے اعلیٰ جرنلوٹں سیجنگ آزادی کے دوران ان کے خلاف متعدد لڑائا ں لڑیں۔ مولوی لیاقت علی،علامہ فضل حق خیر آبادی،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی،حافظ محمد امنے،مولانا شاہ اسحاق محدث دہلوی،مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشدا احمد گنگوہی اور بے شمار علما ء کرام کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ان لوگوں کی ہیجہنوں نے پھانسی کے پھندوں پر اپنی جانیں دیں اور ملک کو آزاد کرانے میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا۔وہیں ریشمی رومال تحریک جس میں مولانا عبدا اللہ سندھی اور مولانا محمد مانں منصور انصاری ان کے اعلیٰ ساتھیشریک تھے۔
JIH Seminar
دوسرا مقالہ “جدوجہد آزادی میں مسلم خواتین کا کردار” سیدہ صالحہ جبیں نے پیش کیا۔جس میں انہوں نے مسلم خواتین جو آزادی میں پیش پیش رہیں ان کا تذکرہ کیا،خصوصیت کے ساتھ بیگم حضرت محل،ابدی بانوبیگم، بی بی امطس سلام، بیگم انیس قدوائی ،بیگم نشاط انساٰ موہانی باجی ،ہاجرہ بی بی ،اسماعیل کلثوم سیدانی، ارونا آصف علی ،سید فخرالحاجیا حسن ،زلیخا بیگم وغیرہ کے نام کے ساتھ ان کی کوششوں کو پیش کیا۔ تیسرا مقالہ”مسلم سیاسی قیادت: تحریک آزادی کے ڈسکورس کی تشکیل”عنوان پر ڈاکٹر عبداللہ چشتی ، اسٹنٹ پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پیش کیا۔اور بتایا کہ مسلمانوں کی اکثریت ایک الگ ملک کی خواہاں نہیں تھی۔’مذہب بطور قومی ریاست کی بنافد’ کے زوال پذیر زمندنار،اور’برابر شہریت پر مبنی قوم پرستی’ کے ابھرتے ہوئے تصور کے درمالنایک کشمکش تھی۔ اس کیباوجود تمام مذاہب کے عام لوگوں نے ملک کو نوآبادیاتی حکمرانی سے آزاد کرانے کے لیق مختلف تحریکوں مںھ حصہ لا۔اور عوام نے ہیروز پیدا کیے،لیڈر بنائے۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی مںم مسلم عوام کی شمولتو پر ہوئے ایک سروے: اطالوی مارکسسٹ اسکالر انتونوھ گرامسی نے اپنی ‘جلر نوٹ بک’ مں مختلف تحریکوں میںاورگروہوں کی شمولتم کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ‘سبالٹرن گروپ’ وہ تھے جو نظر انداز کیر گئے تھے اور جوپسماندہ گروہوں میں سے تھے۔ ان لوگوں نے اس تحریک آزادی کے تصور کو پروان چڑھایا۔ہندوستانی تناظر میںو اس خامل کو رنجتر گوہا اور ان کے ساتھویں نے آگے بڑھایا، خاص طور پر شاہد امنن جنہوں نے مختلف تحریکوں مںم ذیی تنظمومں کی شمولتء کی تجویز پش کی۔ اور بعد مںگ اییی تحریکوں کی قاکدت متمول طبقے نے اپنے ہاتھ مں لے لی۔ اسی طرح ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد مں بھی شاہد امنی کی تحققت کے مطابق عام لوگ بھی اس جدوجہد مں بڑھ چڑھ کر حصہ لتیے تھے۔خان عبدالغفار خان، سرحدی گاندھی جسان کہ وہ اپنے حاموتں مںو کہلاتے تھے، آخری دم تک ہندوستان کے تصور کے ساتھ تمام برادریوں کے لیل ایک قوم رہے۔ 1947 مںف ہندوستان کی تقسمی کی بڑے پماپنے پر مخالفت کی گئی۔ جو لوگ اس کی مخالفت کرتے تھے وہ اکثر جامع ثقافت کے نظریے پر قائم رہتے تھے۔ جامع ثقافت کے خا ل کے حامونں کا استدلال ہے کہ ہندوستانی قوم متنوع ثقافتوں، ذاتوں، برادریوں اور عقائد کے لوگوں پر مشتمل ہے۔
JIH Seminar
یہ تصور سکھاتا ہے کہ ‘قوم پرستی کی تعریف صرف ایک غالب مذہب سے نہںو کی جا سکتی۔ اگرچہ ہندوستانی شہری اپنی مخصوص مذہبی روایات کو برقرار رکھ سکتے ہں لکن وہ سب ایک متحدہ ہندوستان کے ایک قوم کے طور پر رکن ہںص۔ان کی دلیلتھی کہ تمام برادریاں صدیوں سے امن کے ساتھ رہ رہی ہںص اور ییاک طور پر مستقبل مںی بھی ایین ہی رہ سکتی ہںد۔ اس نے اس دور کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کا ذمہ دار انگریزوں کو ٹھہرایاجانا چاہیے۔ آخری مقالہ “ہندوستان میں اسلامی تہذیبی ورثے کے دیرپا نقوش” ڈاکٹر ابھے کمار نے پیش کیا۔ابھے کمار نے ہندوستان کی حقیقی صورتحال، اس میں پیدا کی جانی والی غلط فہمیاں، ہندو، دلت، اور ڈراوڑ و دیگر اقوام کو خلط ملط کرنے جیسے ایشوز پر بات رکھی۔ساتھ ہی کہا کہ ہندوستان کا جو ورثہ ہے اس میں ملی جلی تہذیب کے اثرات موجود ہیں،جنہیں اسلامی تہذیب سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ اور مستقبل کے ہندوستان پر زیادہ توجہ دی جائے۔مقالہ کے آخر میں ڈاکٹرعبداللہ چشتی نے کہا کہ میںیہ کہہ کر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ ہندوستانی قومی تحریک مںب مسلم عوام کی بڑیحصہ داری ہے،اس پر ایک سروے پپرابھی موجود ہے۔ اگرچہ ان کو نظر انداز کرنے یا جدوجہد آزادی مںہ ان کی شرکت کو نظر انداز کرنے کی کوششں کی گئںن لیکنیہ ایک اچھا موقع ہو سکتا ہے کہ ملک کیجدوجہد آزادی مں عام مسلمانوں کے تعاون کو تلاش کرنا شروع کا جائے۔
محمد سلیم اللہ خان، امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند دہلی نے اپنی افتتاحی گفتگو میں کہا کہ ہم نے آج کے سیمنار سے پہلے یہ طے کیا ہے کہ ہم طویل مدتی پروجیکٹ شروع کریں گے جس میں ہسٹری پر مہم چلائیں گے،جو معلومات موجود ہیں، جو تنازعات ہیں،ان سب کو جمع کرکے مرتب کیا جائے اورشواہد اور دلائل کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ آج کا سیمنار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
سیمنار کا تعارف پیش کرتے ہوئے آرگنائزر اور سکریٹری شعبہ تحقیق و تصنیف جماعت اسلامی ہند محمد آصف اقبال نے کہا کہ سیمینار کا مقصد ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی اور اس کے بعد تعمیرِ وطن میں مسلمانوں کی گوناگوں خدمات کا جائزہ لینا ہے۔
JIH Seminar
ساتھ ہی ملک کے ماضی، حال اور مستقبل کی تشکیل میں مسلمانوں کے اثرات کی گہری سمجھ پیدا کرنا اوراس discourseکو عوامی سطح پر موضوع بحث بنانا،تاکہ دلائل و شواہد کے ساتھ گفتگو کو آگے بڑھایا جاسکے۔آصف اقبال نے کہا کہ اسلام کے بنیادی عقائد میں توحید یعنی ایک اللہ کی بندگی کا تصور بہت واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں موجود وسائل کا جب جب مسلمانوں نے بحیثیت حاکم/بادشاہ/یا اللہ کے نائب کے طور پر استعمال کیا، اس میں اسلامی عقائد ،اللہ اور بندے کا تعلق، دنیا کے وسائل پر اختیارات اور اس کے استعمالات، انسانوں کی خدمت، ان کے مسائل میں دلچسپی، امن و امان اور قیام عدل و قسط کے قیام کی کوششیں، مختلف حیثیتوں سے سامنیآتی ہیں۔ چاہے وہ تعلیمی نظام ہو، معاشی نظام ہو، معاشرتی نظام ہو،طبی نظام ہو، علم سائنس و ٹیکنالوجی کا فروغ ہو، یا اخلاقیات اور خاندانی نظام ، سب میں اس کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔البتہ یہ صحیح ہے کہ مسلم حکمرانوں کی کیفیت فی زمانہ یکساں نہیں رہی،جس کی وجہ سے جس درجہ ان میں اللہ اور بندے کا شعوران میں مستحکم تھا، اْسی قدر اسلامی نظریات کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔برخلاف اس کے دیگر اقوام میں چونکہ بندے اور اللہ یعنی حاکمیت الہٰ کا تصور اسلامی عقائد و تصورات کے بالمقابل مختلف ہے،اسی لیے اس کے اثرات مختلف زمانوں میں مختلف حکمرانوں کی حکومتوں اور انسانوں کے تعلق سے خود انسانوں کی درجہ بندی کے نتیجہ میں سخت رہا ہے۔
JIH Seminar
نتیجہ میں انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعہ دوسرے گروہ پر کیے جانے والے مظالم و زیادتیاں اور عدل و قسط کا خون بڑے پیمانے پر ہر زمانے میں بہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے جنہیں دراوڑ کہا جاتا ہے اور وہ گروہ ، جو باہر سے آئے، جب ان کے درمیان حکمرانی کا معاملہ آیا تو قدیم باشندوں کو انہوں نے برداشت نہیں کیا، اْن پر مظالم ڈھائے اور ایک ایسانظام حکومت قائم کیا جہاں انسانوں کے درمیان حددرجہ اونچ نیچ، اور عزت و ذلت کے پیمانے قائم کردیئے۔برخلاف اس کے ہندوستان میں جب مغل یا دیگر مسلمان باہر سے آئے توان میں سے اکثریت نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت، اس کی تعمیر و ترقی، انسانوں کے درمیان محبت و ہمدردی اور تکریم انسانیت یعنی human dignity کو پروان چڑھایا۔ اس کے باوجود اگر کچھ کمیاں مسلم حکمرانوں کی جانب سے رہیں تو اْن کو بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ تاکہ مستقبل کے ہندوستان کو جب آپ اور ہم اور آئند ہ آنے والی نسلیں پروان چڑھائیں تو اْن کمزوریوں سے بچ سکیں جس کے نتیجہ میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اور یہ نقصانات صرف گروہوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ طویل مدتی منفی اثرات کے نتیجہ میں ملک تباہ اور قومیں مختلف حیثیوں سے ہلاک ہوجاتی ہیں۔
JIH Seminar
سیمنار کے اختتام پر تمام مقالہ نگاروں کو انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی کی جانب سے سرٹیفکٹس دے کر اعزاز سے نوازاگیا۔سیمنار کے کنوینر کی خدمات ڈاکٹر فیضان شاہد نے انجام دیں وہیں محمد معاذ نے اظہار تشکر کے پیش کیا۔ سیمنار میں شرکت کرنے والوں میں خصوصاً ہسٹری سبجیکٹس کے پی ایچ ڈی ، ایم فل، ایم اے مع جے آرایف اور نیٹ کے طلبہ و طالبات، ماہر ین تعلیم، پروفیسرز اور اساتذہ کرام ، جرنلسٹ حضرات کے علاوہ اہل علم حضرات نے شرکت کی۔سیمنار کو لائیو ٹیلی کاسٹ بھی کیا گیا جس سے بڑی تعداد میں لوگوں نیاستفادہ کیا۔