یہ روک کارروائی پر نہیں، آئین کے خلاف کام کرنے والوں کی منشااورارادے پر روک ہے:مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی، 21اکتوبر: جمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد کی تاریخ میں آج ایک اورکامیابی کا باب جڑگیا، جب چیف جسٹس وی آئی چندرچورکی سربراہی میں جسٹس جے پی پاردی والا اورجسٹس منوج مشراپرمشتمل ایک بینچ نے ان تمام نوٹسوں پر روک لگادی جو مختلف ریاستوں خاص طورپر اترپردیش حکومت کے ذریعہ مدارس کو جاری کئے گئے تھے اوراس میں کہا گیا کہ عدالت کی طرف سے مزیدنوٹس جاری کئے جانے تک کی مدت کے دوران اس تعلق سے اگر کوئی نوٹس یاحکمنامہ مرکزیاریاست کی طرف سے جاری ہوتاہے تو اس پر بھی بدستورروک جاری رہے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے مرکز اورریاستوں سے چارہفتے کے اندراپنا موقف پیش کرنے کو کہا ہے۔ عدالت نے بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن (این سی پی سی آر)کی اس سفارش پر بھی روک لگادی جس نے اس میں مرکزاورریاستوں سے کہا ہے کہ مبینہ طورپر حق تعلیم ایکٹ سے مطابقت نہیں رکھنے والے تمام مدارس بند کرادیئے جائیں، قابل ذکرہے کہ اس معاملہ میں بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن نے عدالت میں ایک حلف نامہ بھی داخل کیا تھا جس میں مبینہ طورپر اس نے یہ بھی کہا تھا کہ مدارس میں بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دی جارہی ہے اوریہ بچوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے، آگے یہ بھی کہا گیا تھا کہ مدارس میں بچوں کو نہ صرف مناسب تعلیم بلکہ صحتمندماحول اورنشوونماکے بہتر مواقع سے بھی محروم رکھا جارہاہے، واضح ہوکہ اترپردیش میں مدارس کو جو نوٹس جاری کئے گئے ان میں حقائق کو سراسرنظراندازکرتے ہوئے دلیل دی گئی کہ مفت اورلازمی تعلیم برائے حق اطفال ایکٹ 2009کے تحت اگر مدرسہ غیر تسلیم شدہ ہے تواسے بند کیا جائے اورطلباکو قریب ترین پریشدودیالیہ میں منتقل کردیاجائے، اس طرح کے نوٹس کے بعد ہی حکومتی کارندوں نے اترپردیش میں بڑے پیمانہ پر مدارس کے خلاف کارروائی شروع کردی یہاں تک کہ بہت سے مدارس کو جبراًبند کروادیا گیا۔
جمعیۃعلماء ہند نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر ایک اہم پٹیشن جس کا ڈبلیو پی (سی) نمبر, 000660/2024ہے، 4اکتوبر 2024کو داخل کی تھی جس میں ان تمام دعوؤں کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی ہیں جبکہ سینئر ایڈوکیٹ اندراجے سنگھ اس مقدمہ کی پیروی کررہی ہیں، اس پٹیشن پر عدالت نے متعلقہ فریقین سے وضاحت طلب کی تھی اورآج چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے مدارس کے خلاف جاری تمام نوٹسوں اورکارروائی پرروک لگاتے ہوئے مرکزاورریاست کو اپنا موقف پیش کرنے کے لئے چارہفتہ کی مہلت دی ہے،آج سماعت کے دوران سینئرایڈوکیٹ اندراجے سنگھ کے علاوہ کوئی اوروکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا استقبال کیا اور یہ امیدظاہر کی کہ حتمی فیصلہ بھی مدارس کے حق میں آئے گا، اور آئین کے احکامات کی صریحاخلاف ورزی کرنے والی طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑے گی، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیا کہ آئین میں ملک کی اقلیتوں کو جو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں اب انہیں چھین لینے کی طرح طرح کی سازشیں ہوری ہیں، انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ 30 (1)کے تحت تمام اقلیتی تعلیمی اداروں کو جہاں تحفظ دیاگیا ہے وہیں دفعہ 25کے تحت ضمیرکی آزادی اوردفعہ 26کے تحت اقلیتوں کو اپنی مذہبی تعلیمی اداروں کے انتظام وانصرام کی مکمل آزادی دی گئی ہے، سپریم کورٹ بھی متواتر یہ تبصرہ کرتی رہی ہے کہ ان دفعات کے تحت اقلیتوں کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں ان میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاسکتی مولانا مدنی نے 2014میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کے ان فیصلہ کابھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ حق تعلیم ایکٹ 2009کا اطلاق ان تعلیمی اداروں پر نہیں ہوگاجواقلیتوں کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں انہوں نے مدارس کے خلاف ہونے والی سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مدارس کے خلاف یہ سب کررہے ہیں وہ مدارس کے ماحول اورکردار سے نابلد ہیں۔
مولانا مدنی نے آگے کہا کہ جس حق تعلیم ایکٹ کو ذریعہ بناکر مدارس کو بند اورختم کرنے کی سازش ہورہی ہے اس کی دفعہ 1(5)میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کی کوئی شق مدارس، پاٹ شالہ اوراس طرح کے دیگر تعلیمی اداروں پر لاگونہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا تعلق مدارس اسلامیہ سے ہے، ہمارے سارے اکابر یہی سے پڑھ کر باہر نکلے درحقیقت جمعیۃ علماء ہند مدارس اسلامیہ کی آواز اوران کا ذہن ہے، فرقہ پرست طاقتیں اس تاریخ سے بھی نابلد ہیں کہ یہ مدارس ہی ہیں کہ جب پوری قوم سورہی تھی توانہوں نے ملک کو غلامی سے آزادکرانے کا صورپھونکا،مولانا مدنی نے آگے کہا کہ اس سازش کو ناکام کرنے اورآئین کو بچانے کے لئے ہی ہم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا اسلئے کہ اگر یہ سازش کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر آئین کا بھی کوئی جوازنہیں رہ گیا اس کی حیثیت بیکاراوربے فیض کتاب جیسی ہوکر رہ جائے گی ہم ایک بارپھر فرقہ پرست طاقتوں کو یہ باورکرادینا چاہتے ہیں کہ ملک کے آئین اورقانون کے دائرہ میں ہی مدارس اسلامیہ اپنا کام کررہے ہیں اورانہی کی وجہ سے ملک میں اسلام کی نشوونمابھی ہورہی ہے، یہی نہیں مدارس کے فضلاء دنیابھرمیں جہاں کہیں جاتے ہیں اپنے کرداراورکام سے ملک کانام روشن کرتے ہیں مگر افسوس مدارس کے تعلق سے فرقہ پرست ذہنیت کی جو پالیسی ہے وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل سے دوچارکرہی ہے، جمعیۃعلماء ہند اپنے آئینی اورقانونی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت گئی، الحمدللہ اس کا بہتر نتیجہ سامنے آیا اورمدارس کے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں پر روک لگ گئی بلکہ ہم تویہ کہیں گے کہ ہندوستان کے آئین اوردستورکے خلاف جو لوگ کام کررہے تھے ان کی منشا اورارادے پر روک لگی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے آئین کے تحفظ کے لئے لڑرہے ہیں اس لئے کہ آئین بچے گاتوہی یہ ملک بچے گااپنے اس وژن کی تکمیل کے لئے جمعیۃعلماء ہند آئندہ 3 نومبر کو نئی دہلی میں ایک عظیم الشان آئین ہند تحفظ کانفرنس بھی منعقد کررہی ہے۔