نئی دہلی،30جنوری(ایچ ڈی نیوز)۔
جمعیة علماءہند نے سپریم کورٹ میں ایک ٹرانسفر پٹیشن دائر کی ہے جس میں مذہبی تبدیلی سے متعلق قوانین کے خلاف چھ ہائی کورٹس میں زیر التوا 21 مقدمات کو سپریم کورٹ منتقل کی درخواست کی گئی ہے۔جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے مقررکردہ سینئر وکیل کپل سبل نے آج صبح چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کے سامنے عرضی کا تذکرہ کیا، انھوں نے شکایت کی کہ رجسٹری نے ٹرانسفر پٹیشن کو نمبر دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا ہے کہ ہائی کورٹ میں اس سے متعلق درخواست گزاروں کی رضامندی ضروری ہے۔ کپل سبل نے استدلال کیا کہ کہ آئین کی دفعہ 139 (اے) 1 کے مطابق، کوئی بھی شخص مختلف ہائی کورٹس میں زیر التوا تمام درخواستوں کو سپریم کورٹ منتقل کرنے کی درخواست دے سکتا ہے ، اگر درخواست گزار کسی ا یک ہائی کورٹ میں فریق ہے، تاہم سبھی کورٹس میں فریق ہونا ضروری نہیں ہے۔ جب کہ جمعیةعلماءہند، گجرات ہائی کورٹ میں فریق ہے ،اس لیے یہ اس کا دستوری حق ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا چندرچوڑ نے اس معاملے پر غور کرنے پر رضا مندی ظاہر کی اور اسے مذہب کی تبدیلی سے متعلق دیگر مقدمات سے منسلک کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب تمام معاملات پر سماعت شروع ہوئی تو سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس جے بی پاردی والا پر مشتمل بنچ نے ٹرانسفر کی درخواست پر جمعہ 03فوری کو سماعت کی منظوری دی۔
ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد جو جمعیة علماءہند کی طرف سے لو جہاد کیس مقدمات میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہیں ، نے بتایا کہ سی جے آئی کو کیس کے نمبر پر رجسٹری کے اعتراض کے بارے میں جب یاد دلایاگیا تو سی جے آئی نے بتایا کہ انھوںنے اس معاملے کو درج کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔حالاں کہ اٹارنی جنرل فار انڈیا آر وینکٹ رمانی نے منتقلی کی درخواستوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ چوں کہ یہ قوانین ریاستی قانون سازی کے ذریعہ وجود میں ا?ئے ہیں، اس لیے ہائی کورٹس کو پہلے ان کی سماعت کرنی چاہیے۔
اس مقدمہ میں جمعیةعلماءہند کے وکیل ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ کل چھ ہائی کورٹس میں یہ مقدمات زیر التوا ہیں-جن میں گجرات، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اور اتر پردیش شامل ہیں۔ دو ریاستوں یعنی گجرات اور مدھیہ پردیش میں متعلقہ ہائی کورٹس نے کچھ دفعات پر جزوی روک لگا دی ہے۔ ان دونوں ہائی کورٹس میںجمعیة علماءہندفریق ہے۔ وہاں کی حکومتوں نے پابندی کے خلاف سپریم کورٹ رجوع کیا ہے۔
سماعت کے دوران سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے عرض کیا کہ لو جہاد قوانین نے بین المذاہب شادی شدہ جوڑوں کے لیے ’سنگین صورتحال‘پیدا کر دی ہے۔ ان کے علاوہ سینئر ایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ ،ایڈوکیٹ ورندا گروورنے بھی قانون کے خلاف استدلال کیا۔