مدارس میں ہندی زبان کو شامل کیا جائےاور برادران وطن سے اچھے روابط قائم کئے جائیں۔ پروفیسر عبیداللہ فہد
پریاگ راج،30 اکتوبر:گزشتہ جمعہ کو جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ ، لال گوپال گنج، پریاگ راج ، یوپی میں ایک اہم ترین مذاکرہ علمیہ(سمپوزیم) زیر صدارت جناب مولانا محمد حسان خان سلفی ناظم اعلی جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ، بعنوان: ‘‘مدارس کا تعلیمی نظام اور عصری تقاضے’’ منعقد ہوا۔ جس میں موقر علماء کرام اور دانشوران ملک وملت نے شرکت فرمائی ۔ نیز جامعہ کے اساتذہ کرام اور طلبہ وطالبات نے بھی حصہ لیا۔
پروگرام کا آغاز مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اشراف منعقدہ کل ہندمسابقہ حفظ وتجوید وتفسیر قرآن کریم میں پوزیشن یافتہ جامعہ کے طالب حافظ انظار البصر بن کمریج عالم کی تلاوت سے ہوا، بعدہ جامعہ کے موقر استاذ کی انتہائی مقبول ومتداول نعت جامعہ کے طالب عبدالرحیم نے اپنی مترنم آواز میں پیش فرمائی۔ اس کے بعد ناظم اجلاس شیخ الجامعہ جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ مولانا ریاض احمد سلفی نے مہمانان گرامی قدر کا پرتپاک استقبال کیا اور ان کی خدمت میں تحریری سپاس نامہ پیش کیا ، نیز اس پروگرام اور اس کے مرکزی عنوان کی اہمیت و معنویت اور اس پرگفتگو کرنے والی شخصیات کے علم اور تجربات پر مختصر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد جامعہ کے طلبہ وطالبات نے اس اہم پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے عربی ، اردو اور انگلش میں تقریریں پیش کیں۔ عالمیت سال اول کے طالب خورشید عالم نے ‘‘دعوت دین’’ کے موضوع پر عربی زبان میں تقریر کی ، جبکہ فضیلت سال دوم کے طالب محفوظ الرحمان نے ‘‘مدارس کی اہمیت وضرورت ’’کے موضوع پر اردو زبان میں تقریر پیش کی۔نیز متوسطہ ثالثہ کے طالب شہنواز عالم نے ‘‘تعلیم کی اہمیت’’ کے موضوع پر اورجامعہ کی طالبہ ارم نے ‘‘شخصیت وکردار سازی ’’کے عنوان پر انگلش میں تقریر کی۔ اس کے بعد موقر علما ودانشوران کے گرانقدر خطابات اور قیمتی توجیہات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان عظیم علمی شخصیات کو وقت کی قلت کی وجہ سے پورا وقت تو نہیں دیا جاسکا ،لیکن مختصر وقت میں ان لوگوں نےاتنی جامع ، موثر اور دل کو چھوجانے والی گفتگو کی کہ اس تعبیر الفاظ میں مشکل ہے۔
ملک وبیرون ملک سیمیناروں کی زینت بننے والی عظیم شخصیت پروفیسر عبیداللہ فہد فلاحی صاحب (شعبہ اسلامک اسٹدیز ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے ذمہ داران مدارس کو قیام مدارس کے مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر اور ان کی بھر پور رعایت کرتے ہوئےاپنے سابقہ قائدانہ کردار کی ادائیگی پر ابھارا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ فاضل مقرر نے خاص طور پر مدارس میں ہندی زبان کی تدریس پر ارباب مدارس کی توجہ مبذول کرائی اور اسے اختیار کرنے پر زور دیا، کیونکہ ہندی ملک کی قومی زبان ہے اور بیشتر برادران وطن بلکہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی زیادہ ہندی ہی پڑھتی لکھتی ہے۔ ان تک اسلام کی صحیح تعلیمات پہنچانے کے لیے ہندی زبان میں مہارت لازمی ہے۔ موصوف نے مدارس کے خلاف پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے برادران وطن کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے اور انھیں موقع بموقع مدارس کے پروگراموں میں مدعو کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ ہمیں نفرت کے ماحول کو ختم کرنے اور محبت کا ماحول پیدا کرنے اورمیٹھی زبان استعمال کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے موقر پروفیسر محترم جناب ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی صاحب نے طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: ان سے طلبہ کے اندر مختلف شعبہائے زندگی میں بہتر کار کردگی کا ملکہ پیدا ہوگا۔اس لیے طلبہ کو صرف نصابی کتابوں تک محدود نہ رکھاجائے، بلکہ انھیں دیگر میدانوں میں اپنے جوہر دکھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں، مختلف طرح کے علمی مسابقات منعقد کراکے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا جائے، چھوٹی چھوٹی ذمے داریاں دے کر ان کے اندر خود اعتمادی اور معاملہ فہمی کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ کھیل کود کے ذریعہ ان کو صحت وتندرستی کی اہمیت بتائی جائے۔
جامعہ کے موقر استاذ جناب مولانا عبدالوہاب حجازی صاحب نے مدارس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: مدارس اسلامیہ مدرسہ صفہ ہیں، ان کا سلسلہ وہیں سے جڑا ہوا ہے۔ اور ہمارے ملک ہندوستان کا دینی تعلیم کی نشر واشاعت میں خاص مقام ہے۔جس زمانے میں خدمت حدیث کامعاملہ سرد پڑچکا تھا اس دور میں بھی ہندوستان نے فرض کفایہ کے طور پر اس ذمہ داری کو ادا کیا۔ آپ نے میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے درس کی وسعت اور خود ان کے زہد وقناعت کا بھی تذکرہ مثالوں کے ساتھ کیا۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر محترم جناب مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی حفظہ اللہ نےاس اہم ترین موضوع کے لیے ان اہم ترین پروفیسران کے انتخاب پر بانی جامعہ فضیلۃ الدکتور عبدالرحمان بن عبدالجبار فریوائی حفظہ اللہ کو داد تحسین پیش کیا اوران کی علمی خدمات اور دیگر جہود کو سراہا ۔ آپ نے معزز مہمانان کے خطاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: پروفیسر عبیداللہ فہد صاحب قدیم صالح اور جدید نافع سے بہترین طریقے سے واقف ہیں، آپ نے مدارس کے مسائل اور اہل مدارس کی مجبوریوں سے لے کر دور جدید کے تقاضوں تک ہر چیز کو بہت لطیف انداز میں واضح فرمادیا ہے۔ اور پروفیسر ضیاء الدین صاحب نے اس موضوع کے تمہیدات ومقدمات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔آپ نے پروفیسر عبیداللہ فہد صاحب کی آواز میں آواز ملاتے ہوئےمدارس میں ہندی زبان کی تعلیم کے تعلق سے اپنے موقر استاذ مولانا رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ اور اس زبان سے ان کے تعلق وواقفیت کا تذکرہ بھی فرمایا۔
عالمی پیمانے پر مشہور علمی شخصیت فضیلۃ الدکتور عبدالرحمان بن عبدالجبار فریوائی حفظہ اللہ، بانی وروح رواں جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ کو بھی اس پروگرام میں خطاب کرنا تھا ،لیکن افسوس کہ وقت کی قلت کے باعث اس سے محرومی رہی۔وقت کی تنگ دامانی ہی کے باعث امیر محترم کے خطاب کے معابعد مہمانان گرامی اور حاضرین کے شکریے کے ساتھ اس مجلس کے اختتام کا اعلان کردیا گیا۔پھرچند منٹ کے بعد امیر صاحب نے مسجد جامعہ میں حاضرین جمعہ سے پر مغز خطاب فرمایا۔ اللہ تعالی اس پروگرام کو بامقصد بنائے، اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں اور ہمارے معزز مہمانان نیز جملہ حاضرین کو اجر جزیل سے نوازے، آمین۔(ریاض احمد محمد سعید سلفی، شیخ الجامعہ جامعہ ابی ہریرہ الاسلامیہ ،لال گوپال گنج ، پریاگ راج ، یوپی۔)
