نئی دہلی، 06 جنوری(ایچ ڈی نیوز)۔
جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ملک کی موجودہ صورت حال اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت و دیگر اہم موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ ”رام مندر کے افتتاح کو سیاسی پروپیگنڈہ اور انتخابی منافع کمانے کا ذریعہ بنانا اور اس کو سیاسی مقاصد اور پولرائزیشن کے لئے استعمال کرناغلط ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی مذہبی تقریب نہیں بلکہ بی جے پی کا انتخابی پروگرام‘ اور وزیر اعظم کی ’سیاسی ریلی‘ ہے۔ ملک کی موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ ملک آئینی جمہوریت سے بتدریج جانبداریت اور اکثریت پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی نشان دہی متعدد واقعات اور پیش رفتوں سے ہوتی ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں سرمائی اجلاس میں اپوزیشن کے تقریبا تمام ہی اراکین کو بغیر کسی ٹھوس الزام کے معطل کردیا گیا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی موجودگی قانون سازی میں شفافیت لاتی ہے۔ مگر بی جے پی نے اراکین کو معطل کرکے جو قانون سازی کی، ہمارے جمہوری ملک کے لئے خطرناک ہے۔ ٹیلی کام بل 2023 کی منظوری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قانون حکومت کو ہر طرح کی مواصلات تک پہنچنے کا اختیار دیتا ہے جو تجارتی مفادات اور شہری آزدی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اور اس کا استعمال مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہرساں کرنے کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 22 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت بالخصوص بچوں اور خواتین کی نسل کشی، اسپتالوں اور اسکولوں پر اندھا دھند بمباری بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے جس پر کارروائی ہونی چائیے۔ کانفرنس میں جماعت کے نیشنل سکریٹری جناب محمد احمد صاحب اور میڈیا اسسٹنٹ سکریٹری سید خلیق احمد بھی موجود تھے۔ میڈیاکو خطاب کرتے ہوئے جماعت کے اسسٹنٹ سکریٹری جناب انعام الرحمن نے سنہری مسجد پر ہونے والی سیاست اور اس کے تحفظ کے سلسلے میں جماعت کی پیش رفت اور عدالت میں ’پی آئی ایل‘ ڈالنے کی تفصیلات سے سامعین کو واقف کرایا۔
جماعت اسلامی ہند اس بات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ ہمارا یہ ملک آئینی جمہوریت سے بتدریج جانبداریت اور اکثریت پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے جس کی نشاندہی متعدد واقعات اور پیش رفتوں سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی سرمائی اجلاس میں اپوزیشن کے تقریبا تمام ہی اراکین ( راجیہ سبھا کے 46 اور لوک سبھا کے 100 ارکان پارلیمنٹ ) کو بغیر کسی ٹھوس الزام کے معطل کردیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغیر اپوزیشن کے پارلیمنٹ میں احتساب کا پہلو صفر اور حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر سوال کرنے والا کوئی موجود نہیں رہا۔ ًاس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برسراقتدار پارٹی فوجداری قوانین، ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ اور الیکش کمیشن آف انڈیا کی تقرری جیسے قوانین بلا روک ٹوک پاس کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ان نئے قوانین میں ایگزیکٹیو کو غیر معمولی اختیارات دیئے گئے ہیں ۔ حکمراں جماعت کے پارلیمنٹ میں اکثریت میں ہونے کے سبب ، ہمارا ملک ایگزیکٹیو یا ایک ہی لیڈر کے ہاتھوں میں طاقت کے سمٹ جانے کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، جس سے آئینی چیک اینڈ بیلنس کی تاثیر کے کم ہونے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ جو نئے فوجداری قوانین پاس کئے گئے اور جو ضابطے بنائے گئے، ان پر قانونی ماہرین تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکام اس کا غلط استعمال کرسکتے ہیں اور شہریوں کو اظہار رائے، اجتماع اور انجمن کی آزادی پر پابندی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کے دفتر سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے تو اس کی غیر جانبداریت مشکوک ہوسکتی ہے۔ اسی طرح سرکار مخالف رُخ اپنانے والے امیدواروں کو سیاسی سرگرمیوں پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انتخابی بانڈز کے غیر شفاف طریقہ کار نے انتخابی فنڈنگ کے لئے مساوی مواقع کو ختم کردیا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا تو پہلے ہی سمجھوتہ کرچکا ہے اور اب سنسر شپ کے نئے قوانین ، انڈی پنڈنٹ میڈیا کو دبانے یا خبروں میں ہیرا پھیری کرنے کا باعث بن سکتا ہے ۔ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے فرقہ وارانہ اشتعال انگیز بیان بازی ،پولرائزیشن اور معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ ’’ ایک قوم، ایک زبان اور ایک ثقافت‘‘ کا نعرہ ہمارے ملک کو ایک جانبدار جمہوریت میں تبدیل اور ورلڈ لیڈر بننے کی ہماری امنگوں کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ عدل و انصاف اور جمہوریت کے بغیر ہم ورلڈ لیڈر نہیں بن سکتے ۔
جماعت اسلامی ہند ، رام مندر کے افتتاح کو سیاسی پروپیگنڈہ اور انتخابی منافع کمانے کا ذریعہ بنانے پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ اس پروگرام کا استعمال سیاسی مقاصد اور پولرائزیشن کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔ رام مندر افتتاح کی مذہبی تقریب اس بات کی واضح مثال ہے کہ کیسے کچھ سیاست دان مذہب کا غلط استعمال سیاسی فائدے کے لئے کرتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ رام مندر کا افتتاح ’’ بی جے پی کا ’انتخابی پروگرام‘ اور وزیر اعظم کی ’سیاسی ریلی‘‘ میں بدل گیا ہے۔ اگر اس افتتاحی تقریب کا انتظام ’ مندر ٹرسٹ‘ کی طرف سے کیا جاتا تو حالات مختلف ہوسکتے تھے۔ اس موقع پر سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور منتخب نمائندوں کو کہا جانا چاہئے تھا کہ وہ اس پروگرام سے دور رہیں۔ بالفاظ دیگر کوئی تنازعہ ہی نہ ہوتا اگر اس افتتاح کو بغیر کسی سیاسی تقاریر ، پوسٹرز اور نعروں کے صرف ’’ مذہبی تقریب‘‘ تک محدود رکھا جاتا۔ ’شری رام جنم بھومی تیرتھ چھیتر ٹرسٹ‘ کے جنرل سکریٹری نے تو رام مندر کے اس افتتاحی پروگرام کا موازنہ یوم آزادی سے کردیا جو کہ غلط اور تکلیف دہ ہے۔ یہ بیان ملک کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے والا ہے۔ لہٰذا جماعت ا ایسی تشریحات کی مذمت کرتی ہے اور برسراقتدار سے انہیں اپنے عہدے کے حلف کی پاسداری اور آئین و قوانین کو برقرار رکھنے کی گزارش کرتی ہے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی نے ٹیلی کام بل 2023 کی منظور پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اور غزہ میں ہونے والے اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 22 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کا قتل کیا جاچکا ہے۔