نئی دہلی 18فروری( ایچ ڈی نیوز)۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک تعالی فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں ‘‘غرض اسلام کا نقطہ نظریہ ہے کہ دیگر نعمتوں کی طرح بچے بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں، اس لیے اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے، ان کی پرورش اور تربیت کابھرپور اہتمام کرنا چاہیے ۔ ان کی تربیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے، ان سے بدسلوکی اور ان کی پرورش وپرداخت اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے مضر اور زبردست نقصان کا باعث ہے۔ جب ایک تربیت یافتہ بچہ انسانی معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوگا تولازمی طورپر ایک غیر تربیت یافتہ بچہ اسی معاشرے کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی سکریٹری شعبہ تربیت نے یک روزہ تربیتی اجتماع برائے کارکنان مرکز و مرکزی اداہ جات’دعوت ٹرسٹ ،ریڈینس،اسلامی ساہیتہ ٹرسٹ اور مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز‘ مرکز جماعت اسلامی ہند میڈیا ہائوس میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پرورش درست نہج پر کی جائے۔ آپؐنے والدین کو بچوں کی پرورش کا براہِ راست ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جس میں کوتاہی کی صورت میں وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہوں گے۔سینکڑوں افراد پر مشتمل اس تربیتی اجتماع کا آغاز جناب شکیل احمد مظاہری کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جب کہ مولانا محب اللہ قاسمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔
اس خصوصی تربیتی پروگرام میںنائب امیر جماعت اسلامی ہند انجینئر ایس امین الحسن نے کہا کہ بچپن کا ابتدائی دور بچوں کی پرورش کے لحاظ سے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ارد گرد کا ماحول مثلاً گھر، والدین، خاندان اور رشتے دار بچے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس لیے والدین کو بہتر حکمت عملی اپناتے ہوئے بچوں کے سامنے اچھے الفاظ کا استعمال اور فضول گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے کیوں کہ وہ ان کے پہلے استاد بطور رول ماڈل ہوتے ہیں۔
اس ورکشاپ میں فن پرورش پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ گھر میں موجود لڑائی جھگڑے اور تناو بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما پر منفی اثرات مرتب کرکے انہیں نفسیاتی امراض میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جس سے ان کی قوتِ اظہار میں کمی واقع ہوتی ہے اور انہیں ذہانت کے موافق ماحول اور مواقع نہ ملنے پر ان کی صلاحیتوں کی ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔والدین کے مابین مسلسل تصادم کی فضا میں پلنے والے بچے مایوسی اور اِحساسِ کمتری کا شکار رہتے ہیں۔
بچوں کو پر سکون رہنے کے لئے بنیادی طورپر والدین کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب وہ خود انہیں غیر آسودہ اور تناؤ کا شکار دیکھتے ہیں تو وہ ذاتی اعتماد سے محروم ہو کر اطمینان و سکون کی نئی راہیں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً بچے والدین سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ابتدائی عمر میں گھر کے اندر نقل و حرکت کی آزادی دیں تاکہ وہ اپنی ابھرتی ہوئی جسمانی اہلیتوں کو آزمانے اور ان کی مشق کرنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرسکیں۔بچوں کے موبائل کے استعمال پر احتیاط برتیں ،ٹائم سے موبائل دیں اور حکمت سے اس کی نگرانی بھی کرتے رہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بچے مستقبل کے معمار ہیں اگر اْنھیں مناسب تعلیم اور صحیح تربیت دی جائے تو اس کے نتیجے میں ایک اچھا اورمضبوط معاشرہ تشکیل پاتا ہے، بچوں کی اچھی نشو نما اور عمدہ پرداخت ایک مثالی ماحول اور صالح مستقبل کا سبب بنتی ہے ؛اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔