January 26, 2025
Hamari Duniya
دہلی

ملک میں پھیلی ہوئی نفرت کا ماحول اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہوچکا ہے: جماعت اسلامی

Jamate Islami

نئی دہلی،02ستمبر(ایچ ڈی نیوز)۔
آج جماعت اسلامی ہند کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر، نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی، میڈیا نیشنل سکریٹری کے کے سہیل اور’انڈیا ٹومارو‘ کے چیف ایڈیٹر سید خلیق احمد نے شرکت کی۔ شرکاءنے صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے ملک کے کچھ اہم موضوعات پر بات کی۔ جن میں منی پور کا غیر حل شدہ بحران ، نئے فوجداری قوانین، نئے ڈیٹا پروٹیکشن بل ، تعلیمی اداروں میں اسلامو فوبیا ، نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس اور ہماچل ماحولیاتی تباہی جیسے موضوعات شامل تھے۔
اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرکاءنے کہا کہ ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے منی پور کا دورہ کیا۔ اس وفد میں جماعت کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر، نیشنل سکریٹری مولانا شفیع مدنی اور عبد الحلیم پھندریمیم شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ منی پور میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے 65 ہزار لوگ بے گھر ہوچکے ہیں جن میں 14 ہزار بچے ہیں۔ ان میں سے اکثر عارضی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ تشدد کے دوران 198 افراد کی اموات ریکارڈ کی گئی۔ جہاں تک معاشی نقصان کی بات ہے توفی الوقت اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وفد نے محسوس کیا کہ ریاست کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ وادی کے لوگ پہاڑی علاقوں میں نہیں جاسکتے اور نہ ہی پہاڑی لوگ وادی میں۔ فسادیوں نے مکانات اور کاروباری اداروں کو نسلی بنیاد پر کہیں جزوی تو کہیں مکمل طور پر نقصان پہنچایا ہے۔منی پور میں پھوٹنے والا پرتشدد فساد کا ہنوز کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ وزیر اعظم نے ابھی تک ریاست کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی اس سلگتے ہوئے مسئلے پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث ہوئی ہے۔
شرکاءنے کہا کہ حکومت نے لوک سبھا میں تین نئے بل پیش کئے ہیں جن کا مقصد فوجداری نظامِ عدل کو بہتر بنانا ہے۔ یہ تینوں بل آئی پی سی، سی آر پی سی اور ایویڈینس ایکٹ کی جگہ لیں گے۔ ان بلوں کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ یہ ترامیم نظامِ عدل اور عالمی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ عوامی آراءاور ان کے رجحانات کو معلوم کئے بغیر جلد بازی میں کی گئی اس طرح کی تبدیلیوں سے قانونی فریم ورک میں خلل پڑ سکتا ہے اور اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، قانونی پیشہ ور افراد اور عوام کے لئے چیلنجز پیدا ہوسکتے ہیں۔ البتہ ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس بل میں ہجومی تشدد کے جرم پر سزائے موت کے علاوہ 7 سال قید یاعمر قید متعارف کرائی گئی ہے۔
پریس کانفرنس میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ’ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل 2023‘، ایک ایسا بل ہے جس سے حکومت کے ذریعہ کی جانے والی نگرانی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس بل کے بموجب شہریوں کے ڈیٹا کی رازداری سے سمجھوتہ کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ بل کمپنیوں کو کچھ صارفین کا ڈیٹا بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حکومت کو اب یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ فرموں سے افراد کے ذاتی ڈیٹا ان کی رضامندی کے بغیر حاصل کرے اور مرکزی حکومت کے ذریعہ مقرر کردہ بورڈ (ڈیٹا پروٹیکشن بورڈ) کے مشورے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شہریوں کے پوسٹ کردہ مواد کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کرے۔جبکہ ایسا کرنا ملک کے باشندوں کی شہری آزادی کے خلاف ہے۔ اس سے ہماری جمہوریت کمزور ہوگی۔ یہ بل حکومتی اداروں کو تحقیقات اور ریاستی تحفظ کے نام پر ”ڈیٹا پروٹیکشن پروویڑن آف لاء“ سے مستثنیٰ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ استثنیٰ کئے جانے کا یہ دائرہ ’آر ٹی ای‘ کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنے گا جبکہ ”آر ٹی ای“ قانون کے تحت شہریوں کو سرکاری افسران سے ڈیٹا حاصل کرنے کا پورا حق دیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند ملک کے تعلیمی اداروں میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلم، دلت اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباءشدید قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں جس کی حالیہ مثال اترپردیش کے مظفر نگر ضلع میں نیہا پبلک اسکول میں دیکھنے کو ملی جہاں ایک مسلمان بچے کو ہم جماعت طلباءسے پٹوایا گیا۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں بیٹھے ہوئے استاد نے دیگر مسلم طلباءکے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اب سے پہلے اسلامو فوبیا کا یہ زہر شمالی ہند تک محدود تھا، مگر اب آہستہ آہستہ جنوبی ہندوستان میں بھی پھیل رہا ہے۔ ایسی خبریں سامنے آرہی ہیں کہ جن ریاستوں میں حجاب پر پابندی نہیں ہے، وہاں بھی مسلم طالبات کو امتحانات کے دوران حجاب پہننے سے روکا جارہا ہے۔ حال ہی میں تمل ناڈو میں ایک 27 سالہ مسلم لڑکی کو ہندی چیپٹر کا امتحان دینے سے پہلے حجاب اتارنے کو کہا گیا۔ گزشتہ سال کرناٹک میں حکومت کے زیر انتظام پری یونیورسٹی کالجوں نے اسکول یونیفارم پالیسی کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس پابندی کی وجہ سے بہت سی مسلم طالبات اپنے علاقے میں پرائیویٹ کالج نہ ہونے یا ان کی فیسیں زیادہ ہونے کے سبب تعلیم ترک کردیں۔ اسی طرح دہلی کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے کلاس روم میں خانہ کعبہ اور قرآن پاک کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس کئے۔ جماعت اسلامی ہند کو لگتا ہے کہ ملک میں پھیلی ہوئی نفرت کا ماحول اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہوچکا ہے۔ اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پرفائز افراد کے ذریعہ اپنائی گئی خاموشی کی پالیسی، مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کی کارروائیوں کے خلاف بولنے سے بچنے کا رویہ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر عدم تحمل اور پولرائزیشن کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔ جماعت چاہتی ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں، اسکولوں اور کالجوں کے کیمپس میں تیزی سے پھیلنے والے اسلاموفوبیا کو ایک سماجی برائی مان کر اس کے خاتمے کے لئے مناسب قوانین تیار کرے۔ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اکثریتی برادری میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو بھی غلط فہمیاں ہیں، انہیں دور کرنے کی کوششیں کریں، اس سلسلے میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

Related posts

سوسائٹی فار برائٹ فیوچر کی جانب سے کمبل تقسیم

Hamari Duniya

پریس کلب آف انڈیا کے انتخابات میں گوتم لہری پینل نے پھر لہرایا جیت کا پرچم

Hamari Duniya

کیا ہے ڈراپ آؤٹ، جس میں مسلمانوں کی شرح سب سے زیادہ،تفصیلی رپورٹ جاری

Hamari Duniya