جماعت اسلامی ہند نے عوام سے نفرت کی سیاست کرنے والوں کو اقتدار سے اکھاڑ پھینکنے کی اپیل کی
نئی دہلی،03فروری(ایچ ڈی نیوز)۔
جماعت اسلامی ہند کی جانب سے مرکز،نئی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں نائب امیر جماعت اسلامی ہند ملک معتصم خاں نے گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں مورتیاں رکھ کر پوجا کی سہولت فراہم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ” وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ نے اس کام کے لئے انتظامیہ کو سات دنوں کا وقت دیا تھا، اسے دیکھ کرایسا محسوس ہوتا ہے کہ وارانسی ضلعی انتظامیہ بہت جلد بازی میں تھی اور چاہتی تھی کہ ’ انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی ‘ کی جانب سے اس آئین مخالف، حیران کن فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے راحت حاصل کرنے سے پہلے ہی مدعی کو پوجا پاٹ شروع کرنے کی راہ ہموار کردے۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ دلیل دی کہ” 1993 تک گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی جارہی تھی مگر اس وقت کی ریاستی حکومت کے حکم پراسے روک دیا گیا “۔ جماعت کا خیال ہے کہ کورٹ کی یہ دلیل قطعی غلط ہے اور ناواقفیت کی بنیاد پر دی گئی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ تہہ خانے میں کبھی کوئی پوجا ہوئی ہی نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی ثبوت ہے۔ جماعت ا ن جیسے واقعات کی پر زورمذمت کرتی ہے، کیونکہ اس سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو متھرا کی شاہی عیدگاہ، دہلی کی سنہری مسجد اور ملک کی دیگر متعدد مساجد اور وقف املاک پر غیر منطقی و بے بنیاد دعوے کررہے ہیں۔ جماعت ’ ڈی ڈی اے ‘ کی مہرولی میں 600 سالہ پرانی مسجد ( اخونجی مسجد) کو منہدم کرنے کی بھی مذمت کرتی ہے۔ اس مسجد میں ایک مدرسہ (بحر العلوم ) کے علاوہ قابل احترام شخصیات کی قبریں تھیں۔ ان سب کو مکمل طور پر زمین بوس کردیا گیا اور انہدامی کاروائیوں کو عوام کی نظروں سے چھپانے کے لئے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تمام ملبے وہاں سے ہٹا دیئے گئے۔ انہدامی کاروائی کرنے والے اہلکاروں نے مدرسہ میں زیر تعلیم طلبا کے سامانوں کی بھی توڑ پھوڑ کی“۔ انہوں نے کہا کہ ” جماعت ” پلیسیز آف ورشپ ایکٹ 1991“ کی پابندی کرنے کی پرزور حمایت کرتی ہے۔ یہ ایکٹ عوامی عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو 15 اگست 1947 کی حیثیت پر برقرار رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔ اس قانون کے موجود ہونے کے باوجود بھی عدالتوں نے اس طرح کے فیصلے دیئے جو کہ افسوسناک ہیں۔جماعت نے کہا کہ حکومت ہند کو اس ایکٹ کی پرزور حمایت کرنی چاہئے اور اعلان کرنا چاہئے کہ وہ اس پر مکمل طور پرعمل کرنے کی پابند ہے۔ ہم ملک کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تاریخ میں الٹ پھیر کرنے کی کوششوں کو روکیں اور جذباتی مسائل کو اچھال کر ووٹ بینک کی سیاست کرنے والوں کو شکست دیں“۔
جماعت کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر نے اتراکھنڈ حکومت کے ذریعہ یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کیلئے کی جارہی کوشش کو الیکشن اسٹنٹ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کوڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس کے ذریعہ 2024کے الیکشن میںماحول فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔انہوں نے ’عبوری مرکزی بجٹ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ” جماعت اسلامی ہند، حکومت کے عبوری مرکزی بجٹ برائے 2024-25 میں سماجی شعبوں کو نظر انداز کئے جانے پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”جماعت کو مرکزی اقلیتی وزارت کے بجٹ تخمینہ سے بھی مایوسی ہوئی جس میں کچھ اسکیموں اور پروگراموں میں معمولی اضافے کے علاوہ مزید کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اقلیتوں کی تعلیم کو مکمل طور پر بااختیار بنانے کے بجٹ میں بھی کمی کردی گئی ہے۔ یہ کمی مبینہ طور پر پری میٹرک اور مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ( ایم اے این ایف ) جیسی اسکالرشپ اسکیموں کو منسوخ کرنے کی وجہ سے تقریبا 125 کروڑ روپے کم ہوئے ہیں۔ البتہ مدرسوں اوراقلیتوں کے لئے تعلیمی اسکیموں کو گزشتہ بجٹ میں 10 کروڑ روپے سے کم کرکے 2 کروڑ روپے کرنے کے بعد پھر سے نظر ثانی کرکے اس بجٹ کو 2 کروڑ سے بڑھا کر 5 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ جماعت کا مطالبہ ہے کہ صحت کے لئے مجموعی جی ڈی پی کا کم سے کم 3 فیصد اور تعلیم کے لئے 6 فیصد مختص ہونا چاہئے۔ اس عبوری بجٹ میں ٹیکس کے ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کو کوئی خاص راحت نہیں ملی “۔
پروفیسر سلیم نے ’براڈ کاسٹ بل‘ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ” براڈ کاسٹنگ سروسز ( ریگولیشن) بل 2023 کے مسودے کے بارے میں جماعت اسلامی ہند کو تشویش لاحق ہے ، کیونکہ اس سے سینسر شپ اور پریس کی آزادی پر پابندیوں کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ اس بل میں پروگرام کوڈ اور ایڈورٹائزمنٹ کوڈ کی خلاف ورزی پر سرکار کو ایک ’ براڈ کاسٹ ایڈوائزی کونسل‘ کے قیام کی تجویز ہے۔ یہ پچھلے دروازے سے سنسر بورڈ تشکیل دینے کی راہ کھولتا ہے جس کے ذریعہ براڈ کاسٹنگ کی آزادی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس بل کو اتنا مبہم بنا دیا گیا ہے کہ تخلیق کاروں کو گھیرے میں لینا آسان ہوجائے گا۔انہوں نے عوام اور میڈیا کے اہلکاروں سے بھی اس بل کے خلاف آواز اٹھانے کا مطالبہ اور کہا کہ مرکزی حکومت اس بل کو فوری طور پر واپس لے۔
نیشنل میڈیا سکریٹری کے کے سہیل نے ’غزہ میں نسل کشی اورعالمی عدالت انصاف‘ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ” اسرائیل کو اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے میں گھسیٹنے کے جرأت مندانہ اور بروقت اقدام پر جماعت اسلامی ہند، جنوبی افریقہ کی تعریف درج کرنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند حکومت ہند، مسلم ممالک سمیت بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتی ہے کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لئے اسرائیل پر دباو ڈالیں۔ بین الاقوامی عدالت میں اسرائیل کی فرد جرم کو غزہ میں امن کے حصول اور دشمنی کے خاتمے تک جاری رہنا چاہئے“۔ کانفرنس کی نظامت سید خلیق احمد نے کی۔