جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی اورانسٹیٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی (آئی ایس آر ڈی) کے اشتراک سے سیمینار منعقد
نئی دہلی2فروری(ایچ ڈی نیوز)۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کچھ نہ کچھ صلاحیت دے کر دنیا میں بھیجا ہے اور ساتھ ہی اس نیایک طریق زندگی اور نظریہ بھی دیا۔ بعد کے انسانوں نے بالخصوص اہل مغرب نے خدا کے عطا کردہ نظام کو اپنے من مانے طریقے سے چلانے کے لیے مختلف نظریات گڑھ لیے اور ان کی ترویج و اشاعت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہمارا معاشرہ بھی مغربی افکار و تصورات سے آلود ہوتا جا رہا ہے۔واقعہ یہ ہے گھر اور خاندان تک ان افکار و تصورات کی آنچ پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا اس چیلینج کا مقاطع کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے مغربی افکار کو کاؤنٹر کرنے کے ساتھ ہی اسلامی فکر کو پروان چڑھایا جائے نیزاسلام کے فکری مباحث کو سماج کے آخری درجے تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ ایسا کر کے ہی ہم باطل افکار و نظریات سے ملت کو محفوظ رکھ سکتے ہیں اور ایسا کرکے ہم اپنے سماجی نظام کو بھی جلا بخش سکتے ہیں۔مذکورہ بالا تاثرات کا اظہارجناب ملک معتصم خان صاحب (نائب امیر، جماعت اسلامی ہند) نے اس موقع پر کیا جبکہ آپ جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی اورانسٹیٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی (آئی ایس آر ڈی ) کے اشتراک سے منعقدہ سیمینار بعنوان “عصر حاضر میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اور حقیقی مسلم معاشرے کی تشکیل میں فکری و عملی چیلنجز” کی صدار ت فرمارہے تھے۔ آپ نے مزید کہا کہ”اسکولوں و کالجوں میں اخلاقی قدروں کی آبیاری اور فروغ ، نوجوانان ملت کی اہم ترین ذمہ داری ہے اور اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اخلاقی قدروں کو پروان چڑھانے کا اہتمام کریں۔”
سیمینار صبح 10 بجے سے مرکز جماعت کے میڈیا ہال میں منعقد ہوا۔ سیمینار میں چار مقالے پیش کیے گئے۔ پہلا مقالہ “بچوں کے فکری و عملی ارتقا کے موجود ذرائع : چیلنجز اور امکانات” عنوان سے محمد آصف اقبال ،سکریٹری شعبہ، تحقیق و تصنیف، جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی نے پیش کیا۔ انہوں نے بچوں کے ارتقا میں حائل رکاوٹوں کا خصوصی جائزہ لیتے ہوئے امکانات پر روشنی ڈالی اور لائحہ عمل پیش کیا۔ اپنے مقالہ خوانی کے دوران انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ معاشرے کی ابتدا کرنے والے بچوں میں اسلامی عقائد ، افکار و نظریات کو بہترین انداز میں قول و عمل کے ذریعہ ذہن نشین کرایا جائے۔
دوسرا مقالہ “نوجوانوں کی فکری، علمی و عملی صرتحال اور لائحہ عمل ” کے عنوان سے طیب احمد بیگ ،ایڈیٹر، کانتی ساپتاہک نے پیش کیا۔ اس میں انہوں نے نوجوانوں کے فکری انحطاط اور علم و تعلیم کی پسماندگی کو اجاگر کیا نیز سماج میں ملت کے نوجوانوں کو درپیش عملی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن و سیرت کو لائحہ عمل کے طور اپنا راہنما بنانے کی جانب متوجہ کیا۔
“نوعمر خواتین، گھر اور معاش سے وابستہ خواتین کی کیفیات اور نظریاتی و عملی رجحانات “کے عنوان سے تیسرا مقالہ شائستہ رفعت نے پیش کیا۔ جبکہ “موجودہ معاشی نظریات پر مبنی نظام اور مسلمانوں کی اسلامی معاشی نظام سے لا تعلقی کے نتائج ” کے عنوان سے محمد سکندر نے پیش کیا اور معاشی نظما اور ملک و ملت کی صورتحال اور مسائل و امکانات پر گفتگو فرمائی۔ ڈاکٹر مجاہد الاسلام ، شازیہ باری، صنوبر جیلانی ، خلیق الزماں، زاہد حسین، عدنان یوسف، عمر یوسف صاحبان نے مختلف مقالوں پر اپنے انٹروینشنس پیش کیے۔ اس پروگرام کے کنوینر جناب ساجد عمیر تھے ، جنہوں نے پروگرام کے ابتدائیہ کو پیش کیا اور سیمنار کے مقاصد پر نظر ڈالی۔سیمنار کا آغاز قاری ضمیر اعظمی کی تلاوت و ترجمانی سے ہوئی۔