انڈین یونین مسلم لیگ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے تین ہفتوں کے اندر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی،9 اپریل کو اگلی سماعت
نئی دہلی، 19 مارچ (ایچ ڈی نیوز)۔
سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے )-2019 اور شہریت ترمیمی قواعد – 2024 (11 مارچ 2024 کو نوٹیفائڈ کیا) کے نفاذ پر روک لگانے کی درخواستوں پر منگل کو مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کی۔ اگلی سماعت کی تاریخ 9 اپریل مقرر کی گئی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعد مرکزی حکومت کو جواب دینے کی ہدایت دی۔بنچ نے مرکزی حکومت کو سی اے اے ایکٹ اور قواعد کے تحت شہریت دینے سے روکنے کی ہدایت دینے کی عرضی گزاروں کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ‘‘ہم کسی بھی ابتدائی نقطہ نظر کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔’’ تاہم عدالت عظمیٰ نے مرکز کو نوٹس جاری کیا۔ مرکزی حکومت نے انہیں تین ہفتوں کے اندر اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت دی۔
بنچ کے سامنے مرکز کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے جواب دینے کے لیے چار ہفتے کا وقت دینے کی استدعا کی، انہوں نے بنچ کے سامنے کہاکہ “237 درخواستیں ہیں جن میں سی اے اے پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ 20 درخواستیں دی گئی ہیں۔ مجھے جواب داخل کرنے کے لئے وقت چاہئے ۔ ایکٹ (سی اے اے ) کسی کی شہریت نہیں چھینتا ہے ۔ درخواست گزاروں کے ساتھ کوئی تعصب نہیں ہے ۔”وہیں سینئر وکیل کپل سبل، اندرا جیسنگ اور وجے ہنساریا، درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے ، نے مرکز کی طرف سے چار ہفتے کا وقت دینے کی درخواست کی مخالفت کی۔وکیلوں نے بار بار بنچ سے درخواست کی کہ وہ سالیسٹر جنرل مسٹر مہتا سے یہ بیان دینے کو کہے کہ اس دوران (درخواستوں پر فیصلہ آنے تک) کسی کو بھی شہریت نہیں دی جائے گی کیونکہ ایک بار شہریت مل جانے کے بعد پورا عمل ناقابل واپسی ہے اور معاملہ بے معنی ہوجائے گا۔اس پر سالیسٹر جنرل مہتا نے کہا کہ میں کوئی بیان دینے نہیں جا رہا ہوں۔بنچ کے سامنے بحث کرتے ہوئے سینئر وکلاء سبل اور جے سنگھ نے کہا کہ اس سے قبل جب سپریم کورٹ نے 22 جنوری 2020 کو اس معاملے میں مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا، اس نے اسٹے کے سوال پر غور نہیں کیا تھا، کیونکہ اس وقت تک سی اے اے سے متعلق کوئی نوٹیفائڈ نہیں کیا گیا تھا۔
مسٹر سبل نے کہاکہ “چار سال بعد 11 مارچ کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اگر کسی کو شہریت مل جاتی ہے تو یہ ناقابل واپسی ہو گی۔ آپ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔ یہ بے اثر ہو جائے گا۔”سینئر ایڈوکیٹ جے سنگھ نے یہ بھی کہا کہ اس (سی اے اے ) کو اس وقت تک روک دیا جانا چاہئے جب تک عدالت اس کیس کی سماعت نہیں کرتی۔درخواست گزاروں کے وکلاء کے بار بار دلائل پر بنچ نے کہا کہ شہریت دینے کا بنیادی ڈھانچہ ابھی تک تیار نہیں ہوا ہے ۔ایڈوکیٹ نظام الدین پاشا نے بنچ کے سامنے کہا کہ آسام کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے عمل سے 19 لاکھ افراد کو خارج کر دیا گیا تھا اور اب مسلمانوں کے علاوہ سبھی شہریت کے لیے درخواستیں داخل کر سکتے ہیں، جس پر کارروائی کی جا سکتی ہے ۔سپریم کورٹ نے اس معاملے پر بھی غور کرنے کا فیصلہ کیا۔عرضی گزاروں کے دلائل سننے کے بعد بنچ نے مرکز کو نوٹس جاری کیا اور 9 اپریل کو معاملہ درج کرنے کی ہدایت دی۔
درخواستیں انڈین یونین مسلم لیگ اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئیں۔15 مارچ کو سپریم کورٹ نے انڈین یونین مسلم لیگ کی نمائندگی کرنے والے مسٹر سبل کی درخواست کو جلد سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے 19 مارچ کو کیس کی فہرست دینے کی ہدایت کی تھی۔عرضی میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کو ہدایت دے کہ موجودہ رٹ پٹیشن پر فیصلہ آنے تک کسی بھی مذہب یا فرقے کے رکن کے خلاف کوئی زبردستی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
عرضی میں مرکزی حکومت کو شہریت ترمیمی قواعد 2024 اور متعلقہ قوانین یعنی شہریت ایکٹ 1955، پاسپورٹ ایکٹ 1920، غیر ملکی قانون 1946 اور اس کے تحت بنائے گئے کسی بھی قواعد یا احکامات کے تحت کسی کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے کا حکم دینے کی درخواست کی گئی ہے ۔ سی اے اے ان افراد کو شہریت دینے کی تجویز کرتا ہے جو افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی یا عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں اور 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں۔