مقبوضہ بیت المقدس،17دسمبر(ایچ ڈی نیوز)۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 2014 کے زمینی حملے میں ہونے والے نقصانات کے مقابلے میں تقریباً دوگنا ہو گئی ہے۔صہیونی فوج غزہ کی پٹی میں 27 اکتوبر سے داخل ہے۔ دوسری جانب حماس نے گوریلا جنگ کی تکنیک استعمال کرنا شروع کردی ہے۔ حماس کے جنگجو بھاری اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔اسرائیلی فوجی ماہرین، ایک اسرائیلی کمانڈر، اور حماس کے ایک ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح فلسطینی تحریک اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے کو استعمال کر رہی ہے اور غزہ کی سڑکوں کو اسرائیلی فوجیوں کے لیے ایک جان لیوا بھول بھلیوں کا روپ دے چکی ہے۔ حماس کے افراد سرنگوں کے بڑے نیٹ ورک کے بارے میں اپنے علم سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
حماس جن ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے ان میں دستی بموں سے لیس ڈرون اور ٹینک شکن ہتھیار شامل ہیں۔ یہ دھماکہ خیز ہتھیار یکے بعد دیگر دو مراحل میں پھٹتے ہیں۔ اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس کے لگ بھگ 110 فوجی اس زمینی دراندازی میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ جہنم رسید اسرائیلی فوجیوں کا ایک چوتھائی ٹینک کا عملہ تھا۔
یاد رہے غزہ میں 2014 میں ہونے والی لڑائی میں 66 صہیونی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت اسرائیل نے ایک محدود زمینی دراندازی شروع کی تھی جو تین ہفتے تک جاری رہی۔ اس وقت اسرائیل کا ہدف حماس کو ختم کرنا نہیں تھا۔یاکوف امدرور ایک ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل اور سابق قومی سلامتی کے مشیر جو اب جیوش انسٹی ٹیوٹ برائے قومی سلامتی میں کام کرتے ہیں نے کہا “اس جنگ کے دائرہ کار کا موازنہ 2014 سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت ہماری افواج کی کارروائیاں اکثر غزہ کے اندر ایک کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ انہوں نے کہا اسرائیلی فوج کو ابھی تک سرنگوں کے لیے کوئی اچھا حل نہیں ملا ہے۔ یہ ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس نے گزشتہ دہائی میں نمایاں طور پر وسعت اختیار کی ہے۔
سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حیران کن حملہ کیا، حماس نے 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک اور 240 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس دن اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری شروع کردی تھی۔ اسرائیلی فوج کی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں اب تک 19000 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ 2014 میں لڑنے والے ایک اسرائیلی کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آپریشن کی توسیع سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین پر زیادہ اسرائیلی فوجی موجود ہیں جس سے حماس کو ’دفاعی پارٹی کے فائدے‘ ملے ہیں۔ اسی وجہ سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکتوں کی توقع تھی۔
یاد رہے اسرائیلی فوج نے ان کارروائیوں میں حصہ لینے والی افواج کی تعداد یا دیگر تفصیلات کا اعلان نہیں کیا ہے۔2014 میں استعمال کیے گئے اپنے طریقوں کی تقلید کرتے ہوئے اسرائیلی فوج سوشل میڈیا پر تصاویر پوسٹ کر رہی ہے جس میں بلڈوزر سے بنائی گئی سڑکیں دکھائی دے رہی ہیں۔ ان سڑکوں کا مقصد یہ ہے کہ فوجی ان سڑکوں سے بچ سکیں جن میں بارودی سرنگیں ہو سکتی ہیں۔ شمالی غزہ کی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں لیکن اس کے بعض علاقوں میں اب بھی شدید لڑائی جاری ہے۔اسرائیل کی سیکیورٹی سروسز کے ایک سابق سینئر اہلکار ایال بینکو نے کہا کہ حماس نے 2014 سے اپنی طاقت بنانے کے لیے کچھ بڑے اقدامات کیے ہیں۔ اس دوران ایران نے روسی ساختہ کورنیٹ اینٹی ٹینک میزائل سمیت کچھ جدید ہتھیار حماس کو سمگل کرنے میں مدد کی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس دوران حماس نے غزہ میں دیگر ہتھیار بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے۔ حماس کے ان نئے ہتھیاروں میں آر پی جی-7 راکٹ بھی شامل ہیں۔
حماس نے اپنی اشاعتوں میں کہا ہے کہ اس کے ہتھیاروں میں ٹینک شکن گولے شامل ہیں۔ حماس کی جانب سے شائع کیے گئے ویڈیو کلپس میں اکثر بکتر بند گاڑیوں کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے دھماکے ہوتے دکھائے جاتے ہیں۔ اسرائیلی فوجی ماہرین کا کہنا تھا کہ دھماکے کا مطلب گاڑی کی تباہی نہیں ہے کیونکہ یہ دھماکہ دفاعی نظام کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ یہ نظام گولوں کو روکنے کے لیے پھٹ جاتا ہے۔مصری اخبار الاحرام کے چیف ایڈیٹر اشرف ابو الھول جو پہلے غزہ میں کام کر چکے ہیں اور فلسطینی امور میں مہارت رکھتے ہیں نے کہا کہ حماس کے عسکریت پسند راکٹ اور پروجیکٹائل فائر کرنے کے ہر ممکن حد تک قریب آ رہے ہیں۔لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی ڈرون اور دیگر ذرائع شہری علاقوں میں حماس کی صلاحیت کو کمزور کر رہے ہیں۔ جنگجوو¿ں کے لیے شہروں میں لڑائی زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ سیکیورٹی میں کام کرنے والے اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے ایک سابق اہلکار الیگزینڈر گرین برگ نے کہا کہ حماس اپنے نئے ہتھیار اور حربے استعمال کر رہی ہے لیکن بنیادی طور پر یہ گوریلا طرز کی مزاحمتی تحریک ہے۔