Iranian Agents
تہران،12اگست(ایچ ڈی نیوز)۔
تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور لبنان میں حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کے قتل کے بعد ایران اور خطے میں اس کے ایجنٹوں اور اتحادیوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اہم موڑ آیا ہے۔ رہنماو¿ں کے قتل کا بدلہ کس طرح لیا جائے ، اس حوالے سے فیصلے کرنے ہیں۔
Iranian Agents
ایرانی امور کے ماہر جابر رجبی کے مطابق ایجنٹوں کے قیام کا بنیادی مقصد (کئی عرب ممالک میں تہران کی حمایت یافتہ مسلح ملیشیا جن کی قیادت لبنان میں حزب اللہ کر رہی ہے) ایرانی حکومت کو خطرے سے بچانا تھا۔ اور دوسرا ان کو علاقائی اور بین الاقوامی مذاکرات میں ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ تیسرا مقصد ان ایجنٹس کے ذریعے نشانہ بنائے گئے ممالک کو متاثر کرنا تھا۔
Iranian Agents
جابر رجبی نے ایک عربی چینل کو دیے گئے بیانات میں مزید کہا کہ درحقیقت ایران نے کئی سالوں کے دوران کسی حد تک یہ تین اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ وہ تنازعات میں براہ راست مداخلت سے بچنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس نے مذاکرات میں ٹرمپ کارڈ کے طور پر پراکسیوں سے فائدہ اٹھایا اور مراعات حاصل کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ عراق، یمن، شام، لبنان حتیٰ کہ افریقہ میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بہت زیادہ اثر انداز ہونے اور ان ممالک کی اندرونی سیاست میں اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہا۔
Iranian Agents
جابر رجبی نے مزید کہا لیکن 7 اکتوبر کے بعد مساوات کچھ بدل گئی کیونکہ تہران اس تنازع سے جس طرح اس کی امید تھی دور نہیں رہ سکا۔ اسے اس کی آگ اور بار بار جنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری طرف ایجنٹوں کے کاغذات پر انحصار کرنے والے مذاکرات نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو وہ چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ ہدف بنائے گئے ممالک میں داخلی سیاست اس چیز سے قدرے دور ہونے لگی جس کی ایران کی خواہش تھی۔ شام کا بین الاقوامی برادری کے ساتھ میل جول، کچھ دھڑوں پر عراقی حکومت کا کنٹرول اور غزہ کے باشندوں کے درمیان حماس کی اتار چڑھاو والی صورتحال ایسی تھی جو ایران کی خواہش سے مکمل موافق نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ دھچکا ایران، امریکہ اور پھر اسرائیل کے درمیان براہ راست تصادم کے بعد لگا کیونکہ ان دھڑوں میں اپنے بنیادی حامیوں کی فوجی اور سکیورٹی طاقت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے تھے۔ ایران ہمیشہ اپنے ایجنٹوں اور حامیوں کے سامنے خود کی ایک مافوق الفطرت تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ تصویر اب مسخ کر دی گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا حتی کہ حزب اللہ جیسے بڑے پراکسیوں نے تہران کی جانب سے جوابی کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اپنے بیانات میں انہوں نے اشارہ کیا کہ ایران کو اپنا وقار بحال کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
جابر رجبی نے یہ بھی کہا کہ اب جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ایران کی جانب سے ایجنٹوں کا ردعمل مساوات کو تبدیل نہیں کرے گا اور تہران کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایران کو اپنے ایجنٹوں کے سامنے خود کو ثابت کرنا ہوگا کیونکہ ان کے حوصلے بار بار کی شکستوں اور قتل و غارت کے بعد نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ حماس کو دیگر پراکسیوں میں سے ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم یحییٰ سنوار کی پوزیشن بھی ایران کی پوزیشن سے جڑی ہوئی ہے۔ حزب اللہ کو بھی احساس ہے کہ آنے والے سالوں میں اس کی پوزیشن تہران کی علاقائی پوزیشن پر منحصر ہے۔ جابر رجبی نے یہ بھی کہا کہ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایران کے ردعمل میں ایجنٹس حصہ لے سکتے ہیں لیکن وہ ایجنٹس ایران کی طرف سے جواب نہیں دے سکتے۔