نئی دہلی،21 دسمبر ،(ایچ ڈی نیوز)۔
ایران میں حجاب کے خلاف جاری احتجاج اور مغربی ممالک کے ذریعہ کئے جارہے پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کیلئے ایران نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کے صدر کی مشیر برائے خواتین و اطفال پروفیسر خدیجہ کریمی کی قیادت میں ایک وفد بھارت آیا ہوا ہے۔ انہوں نے آج ایران کلچر ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرکے ایران میں جاری احتجاج اور مغربی ممالک کی ایران کے خلاف ہورہی سازش پر تفصیل سے گفتگو کی۔ حالانکہ یہ پروگرام صحافیوں کو اعزاز سے نوازے جانے کیلئے منعقد کیا گیا تھا۔اس موقع پر کلچر ہاو س کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی ربانی اور ایک ایرانی یونیورسٹی کی لیکچرار ڈاکٹر زہرہ میر سعادت ہاشمی بھی موجود تھیں۔ پروفیسر خدیجہ کریمی نے پولیس کی حراست میں خاتون کی ہلاکت کے بعد ایران میں جاری احتجاج کو مغربی میڈیا کی سازش قرار دیا ہے۔
پروفیسر خدیجہ کریمی نے کہا کہ ہند -ایران تعلقات بہت پرانے ہیں، ایران میں انقلاب کی چار دہائیوں میں خواتین کی حالت میں بہت بہتری آئی ہے۔ خواتین ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ خواتین سرکاری اداروں، میڈیا، فلموں اور دیگر شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 80 ملین آبادی والے ملک ایران میں احتجاج کرنے والوں کی تعداد 200,000 سے کم ہے۔ مغربی میڈیا احتجاج کے حوالے سے پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ ایران میں احتجاج کرنے والوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سوشل میڈیا پر غلط خبروں کو عام کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی خبروں سے ہمارے اپنے لوگ بھی الجھ رہے ہیں۔ایران میں پولیس کے پاس اسلحہ نہیں، پولیس خالی ہاتھ ہے۔ ان ہنگاموں میں پولیس اہلکار بھی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، ڈھائی ماہ میں سرکاری املاک کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں وغیرہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ آرٹ اور کلچر میں خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں۔یونیورسٹیوں میں 56 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔یونیورسٹیوں میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کے داخلے کا ریکارڈ ہے۔ ایران میں 33 فیصد تدریسی عملہ خواتین اور 40 فیصد خواتین ڈاکٹرز ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ ایران میں حجاب پر اتنا ہنگامہ کیوں ہے؟ کم از کم ڈریس کوڈ تو ہونا چاہیے۔ دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ خواتین باہر نکلتے وقت اپنے جسم کو ڈھانپیں۔ حکومت عریانیت کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ایران پر دباو¿ ڈالنے کے لیے لوگوں نے اپنے بال کٹوائے ہیں۔ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا معاملہ بتایا جا رہا ہے کئی ممالک کی حکومتیں بھی اس میں ملوث ہیں۔ مغربی میڈیا کا کردار اچھا نہیں ہے، اس کے ذریعے ہمیں ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، ہر جمہوری ملک میں شہریوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے، لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ فرانس میں حجاب اور ایران میں حجاب نہ پہننے والوں کو گرفتار کرنے کا حق ہے۔ ہندوستان میں میڈیا کا کردار اچھا رہا ہے۔ ایران کے خلاف غلط پروپیگنڈہ نہیں کیا جاتا۔ ہندوستان اور ایران میں میڈیا میں تعاون بڑھانے پر زور دیا جانا چاہئے۔دونوں ممالک کے آرٹ کلچر کے فروغ پر زور دیا جانا چاہئے۔
اس موقع پر نئی دہلی میں ایران کلچر ہاؤس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی ربانی نے بھارت اور ایران کے درمیان رشتوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بھارت اور ایران کے رشتوں میں میڈیا کے رول کو سراہا۔
اس موقع پرروزنامہ سیاسی تقدیر کے ایڈیٹر محمد مستقیم خان، رابطہ ٹائمس کے ایڈیٹر اقبال احمد، کشمیر عظمی کے ایڈیٹر، ڈی ڈی نیوز سے فرمان چودھری، روزنامہ انقلاب سے وسیع عثمانی، قومی صحافت لکھنؤ کے ایڈیٹر سمیت متعدد صحافیوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔