نئی دہلی، 16 دسمبر ( ایچ ڈی نیوز)۔
گلوبلائزڈ دنیا میں جنگ ، سیاست اور سلامتی کے موضوع پر مشہور تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دو روزہ سمینار آج سے شروع ہوگیاہے ، افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے امریکہ میں مقیم مشہور اسکالر سیم پٹروڈا نے کہاکہ دنیا کے مختلف ممالک اور لیڈران اپنے ایجنڈا اور مقصد کیلئے امن کی جگہ تشدد کا سہارا لے رہے ہیں اور پوری دنیا کو ایک نئی جنگ میں ڈھکیل رہے ہیں جس کا انجام بہت ہی بھیانک اور تباہ کن ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ جنگ کے ذریعہ امن وسلامتی کبھی نہیں آسکتی ہے ، سلامتی کیلئے جنگ کا راستہ چھوڑنا ہوگا۔ یہ بیحد شرمناک ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی دنیا جنگ اور لڑائی کا شکار ہے ، اور زیادہ تر علاقہ مختلف طرح کی لڑائیوں میں الجھا ہوا ، ٹیکنالوجی اور سائنس کا فائدہ امن کو فروغ دینے کے بجائے جنگ کیلئے کیا جارہاہے یہ بہت زیادہ باعث تشویش ہے اور عالی رہنماو¿ں کو اس کا مستقل حل ڈھونڈنا ہوگا۔ معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ 1946 میں یہ ادارہ بنایاگیا تھا لیکن پانچ ممالک نے ویٹو پاور اپنے پاس رکھ کر اس ادارہ کا ہمیشہ اپنے مقصد کیلئے غلط استعمال کیا ہے، حالیہ دنوں میںغزہ پٹی میں جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ نے بارہا کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی کیوں کہ ویٹو پاور کا غلط استعمال کیاگیا ، اس لئے ہماری رائے ہے کہ پوری دنیا کو اب یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی جس قراردادکو پچاس فیصدسے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہوجائے اس میں ویٹو پاور کا استعمال نہیں ہونا چاہیے تبھی امن کا قیام ہوسکتاہے۔
مشہور مورخ پروفیسر رام پنیانی نے اپنے خطاب میں فلسطین تنازع اور غزہ پر اسرائیلی حملہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ فلسطین تنازع گذشتہ ستر سالوں سے جاری ہے لیکن عالمی طاقتیں اس کو سلجھانے کے بجائے ہمیشہ الجھاتی رہی ہے ،عالمی طاقتوں نے فلسطین پر فلسطینیوں کا حق سمجھنے کے بجائے باہر سے آئے لوگوں کا اسے وطن بنادیا اور وہاں کے باشندوں پر ظلم وستم کرکے باہر نکال دیا، غزہ پٹی میں اسرائیل کے حملہ کو دو مہینہ سے زیادہ دن ہوگئے ہیں لیکن امن کے قیام کی کوشش نہیں ہوئی ، زیادہ تر ممالک امن چاہتے ہیں لیکن چند ممالک اس میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہے طاقت کا عدم توازن۔ دنیا میں امن کا قیام اسی وقت ممکن ہے جبکہ طاقت کے درمیان توازن پیدا ہوگا اور کوئی ایک ملک سبھی پر حاوی نہیں ہوگا۔بوسینیا کے سابق وزیر دفاع پروفیسر سیلمو نے اپنے خطاب میں کہاکہ دنیا بھر میں انتشار ہے ، لڑائی اور خانہ جنگی ہے ، کہیں دو ریاستوں میں لڑائی ہے اور کہیں کچھ گروپ جنگ کررہے ہیں جس کیلئے ذمہ دار عالمی طاقتیں ہیں کیوں کہ لڑائی اور جنگ کی شروعات کسی گروپ کی جانب سے اسی وقت ہوتی ہے جب ان کو دبایاجاتاہے جاتاہے اور سپر پاور طاقتوں کی طرف انہیں ان کے حقوق دینے کے بجائے ان پر ظلم کیا جاتاہے۔سابق سفیربرائے چین اور ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف چائینز اسٹڈیز دہلی اشوک ک کانتھا نے اپنے خطاب میں کہاکہ فلسطین اسرائیل تنازع کے درمیان ہندوستان نے امن کے قیام کیلئے پوری کوشش کی اور اپنی پرانی خارجہ پالیسی کو برقرار رکھا جو قابل ذکر ہے ، انہوں نے کہاکہ ہندوستان نے جس طرح شروع سے اس معاملہ پر نظر رکھا اور جنگ کے بجائے امن کی حمایت کی وہ ایک کامیاب سفارتی کوشش ہے ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب دوسری مرتبہ جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی تو ہندوستان نے اس کی حمایت میں ووٹ کیا ، پہلی مرتبہ بھی ہندوستان نے جنگ کی حمایت نہیں کی۔سابق سفیر اور سابق راجیہ سبھا ایم پی میم افضل نے اپنے خطاب میں کہاکہ سیاست اور جنگ کا گہرا رشتہ ہے ، جنگ کے ذریعہ سیاست میں کامیابی ملتی ہے اور اسی لئے بہت سارے حکمران اس کا سہارا لیتے ہیں جبکہ امن سے عوام میں خوشحالی پیدا ہوتی ہے ، ملک ترقی کرتاہے اور سفارتی سطح پر مقبولیت ملتی ہے، اکیسویں صدی میں جس طرح جنگ ہورہی ہے یہ کہنا بھی بہت مشکل ہے کہ دنیا گلوبلائزڈ ہے ، جنگ کا طریقہ بدل گیا ہے لیکن حالات ابھی تک تبدیل نہیں ہوسکے ہیں۔
آئی ا و ایس کے چیرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم کا پیغام بھی پڑھاگیا جس میں انہوں نے کہاکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا لوگوں کے حقوق کا ایک نیا دور دیکھنا چاہتی تھی جس میں زندگی کے بنیادی حقوق، آزادی، قانون کے سامنے برابری، غیر جانبدارانہ انصاف تک رسائی، اور غلامی، غلامی، تشدد اور من مانی گرفتاری یا قید سے آزادی شامل ہے۔ اس سب سے دنیا میں امن کی امید تھی۔ اقوام متحدہ کو اسی مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا تھا اور قومی ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام حقوق کے حصول میں تعاون کریں۔ حقوق کی اس تحریک سے جنگ کو ختم کرنے اور پائیدار امن قائم کرنے کی امید تھی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ دنیا میں اب بھی جنگ اور حقوق سے انکار جاری ہے۔ظالموں نے دوسروں کو انصاف دینے سے انکار کرتے ہوئے برتری کو برقرار رکھنے کے لیے نئی پیش رفت پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ہر رکن ملک انسانی حقوق کے تصور سے متفق ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ 75 سال کا ہو چکا ہے۔ جنیوا کنونشن جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق فراہم کرتاہے اس کو 76 سال ہوگئے ہیں۔ 75 اور 76 سال گزرنے کے بعد بھی ان قوانین کا احترام نہیں کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر شیطانیت میں اضافہ ہوا ہے جس نے شہریوں کو شدید تباہی کی قطار میں ڈال دیا ہے۔ امن کے اثبات کے لیے مساوات، انصاف، آزادی کی ضرورت ہے۔سب کے لیے انصاف کے تصور پر امن قائم کیا جا سکتا ہے۔اگر طبقاتی، ذات پات، رنگ، نسل اور علاقے کی بنیاد پر انصاف سے انکار کیا جائے تو امن قائم نہیں ہو سکتا۔دنیا کے رہنماو ¿ں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سب کے لیے انصاف کے لیے کام کریں۔ ترقی سے دنیا کے تمام لوگوں کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ جنگ کو ایک چیلنج کے طور پر لیا جانا چاہیے اور اقوام متحدہ کی مشینری کے ساتھ مو ¿ثر طریقے سے نمٹا جانا چاہئے۔
آئی او ایس کے جنرل سکریٹری پروفیسر زیڈ ایم خان نے اپنے خطاب میں کہاکہ سیاست کی فطر میں لڑائی ہے ، سیاست کاکام دولوگوں کو آپس میں الجھانا اور لڑاناہے ، ترقی یافتہ دنیا میں لڑائی پہلے سے زیادہ ہورہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اب لڑائی کا انداز اور طریقہ بدل گیاہے۔ امن کاقیام اسی وقت ممکن ہے مظلوموں اور کمزوروں کا استحاصل بند کیا جائے گا اور طاقت کے درمیان توازن کو یقینی بنایاجائے گا اورقدرتی وسائل پر سبھی کی حصہ داری کو تسلیم کیا جائے گا۔ افتتاحی اجلاس میں نظامت کا فریضہ آئی او ایس کے وائس چیرمین پروفیسر افضل وانی نے انجام دیا ، قبل ازیں مولانا عدنان ندوی نے قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کرکے آغاز کیا ، پروفیسر حسینہ حاشیہ نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔واضح رہے کہ یہ سمینار آن لائن اور آف لائن دونوں موڈمیں چل رہاہے ، دلچسپی رکھنے والے زوم کے ذریعہ جوائن کرسکتے ہیں یا آئی او ایس کے فیس بک پیج پر لائیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
