تہران،20مئی ۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں رحلت کے بعد ملک کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے محمد مخبر کو حکومت کا نیا عارضی سربراہ مقرر کر دیا۔محمد مخبر 50 روز کے اندر نئے انتخابات کروانے کے پابند ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق اب نائب صدر محمد مخبر صدارتی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ایران کے آئین کے آرٹیکل 131 کے مطابق اگر کوئی صدر اپنے دورِ اقتدار کے دوران نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر انتقال کر جاتا ہے تو سپریم لیڈر کی جانب سے تمام تر صورتحال کی تصدیق ہونے کے بعد نائب صدر اقتدار سنبھالتا ہے۔
بعد ازاں نائب صدر، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ پر مشتمل ایک کونسل کو 50 دنوں کے اندر نئے صدر کا انتخاب کروانا ہوتا ہے۔عبوری صدر کے طور پر محمد مخبر اس تین رکنی مجلس کے بھی ایک رکن ہوں گے جو صدر کے انتقال کے بعد پچاس دنوں کے اندر اندر نئے صدارتی انتخاب کے انعقاد کی ذمہ داری انجام دے گی۔ اس تین رکنی مجلس میں اول نائب صدر کے علاوہ ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر اور ایرانی عدلیہ کے سربراہ شامل ہوں گے۔ گویا ایرانی آئین نے اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کا راستہ پہلے سے دیا گیا ہے۔
ایران کے عبوری صدر بننے والے محمد مخبر کون ہیں؟
اول نائب صدر محمد مخبر یکم ستمبر 1955 کو پیدا ہوئے۔ وہ بھی مرحوم صدر رئیسی کی طرح ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ سپریم لیڈر جنہیں ایران میں بالاتر عہدے دار اور ہر اہم معاملے میں حرف آخر کہنے کا مجاز مانا جاتا ہے۔محمد مخبر 2021 میں اسی وقت اول نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے جب ابراہیم رئیسی ایران کے صدر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ گویا وہ حکومتی امور میں ان کے ساتھ کئی برسوں سے شریک چلے آرہے تھے۔محمد مخبر اس اعلیٰ سطح کی ایرانی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ جس نے ماہ اکتوبر میں روس کا دورہ کر کے روسی فوج کو مزید ڈرونز کی فراہمی کے علاوہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کی فراہمی کا فیصلہ کیا تھا۔اس روس جانے والی ایرانی ٹیم میں اول نائب صدر کے علاوہ انقلاب پاسدارن کور کے دو سینئیر حکام کےساتھ ساتھ سپریم قومی سلامتی کونسل کے ایک ذمہ دار بھی شامل تھے۔محمد مخبر کو اس سے پہلے سپریم لیڈرعلی خامنہ ای کے زیر ہدایت کام کرنے والے سرمایہ کاری فنڈ کی سربراہی کرنے کا موقع بھی مل چکا ہے۔یورپی یونین نے 2010 میں محمد مخبر کو اپنی اس فہرست میں شامل کر لیا جس میں کئی ایرانی شخصیات کے نام تھے اور انہیں یورپی یونین نے پابندیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ ان ایرانی شخصیات نے جوہری پروگرام بیلسٹک میزائلز کی تیاری کے امور میں کردار ادا کیا تھا۔ تاہم دو سال بعد ان کا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا۔سال 2013 میں امریکی محکمہ خزانہ نے پابندیوں کے حوالے سے ایک اور فہرست بنائی اس میں 37 ایرانی کمپنیوں اور سیتاد کے نام شامل کیے گئے تھے۔ سیتاد کا پورا نام اجرائے فرمان امام ہے۔ یا جنہیں بانی ایرانی انقلاب آیت اللہ خمینی نے نامزد کیا ہو۔ یا امام کے ہیڈ کوارٹر کی طرف سے نامزد کیا گیا ہو۔
previous post