پرویز یعقوب مدنی جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
حسن اخلاق کی دین اسلام میں بڑی اہمیت ہے حسن اخلاق انسان کا ایسا عظیم جوہر ہے جو اس کی شخصیت کو نکھارنے اور اس میں چار چاند لگانے کا کام کرتا ہے، یہ ایسا عظیم اور بامراد اسلحہ ہے جس کے ذریعہ بڑے بڑے دشمنوں کو اپنا معتقد بنایا جاسکتا ہے قوموں کے عروج اور زوال کا راز بھی انکے اچھے اور بہتر اخلاق میں مضمر ہے، حسن اخلاق ایسی طاقت ہے جو انسان کی پارسائی ، باہمی الفت و محبت ، سنجیدگی و متانت، اتحاد و اتفاق ، ظلم وزیادتی سے اجتناب، عدل و انصاف کا پیکر، امانت و دیانت کا خوگر، امن وسلامتی کا پیامبر جیسے بے شمار اوصاف و کمالات کو عیاں اور بیان کرتی ہے۔ حسن اخلاق سے معاشرہ کے اندر پائی جانے والی بےشمار برائیوں، نفرت و عدوات، کینہ و کپٹ، آپسی انتشار و افتراق، بغض وحسد، تملق و چپقلش، اختلاف و تشتت کا خاتمہ ہوسکتا پے۔ قرآن وسنت میں اس کی فضیلت کے متعلق آیات واحادیث بکثرت وارد ہیں امام عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے انہوں نے اخلاقِ حسنہ کا وصف بیان کرتے ہوے کہا: اخلاقِ حسنہ لوگوں سے مسکرا کر ملنا ہے، بھلائی کرنا ہے اور دوسروں کو تکلیف دینے سے باز رہنا ہے (جامع ترمذي : ٢٠٠٥) باری تعالیٰ کے نزدیک حسن اخلاق کا حامل انسان سب سے اچھا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ “إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلَاقًا” (بخاري ومسلم) ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو۔
دوسری جگہ بیان کیا کہ مومنین کے ترازو میں سب سے وزنی چیز حسن خلق ہوگا۔عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ما من شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ (الترمذي :٢٠٠٢)
ترجمہ : صحابي رسول جناب ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہوگی۔
ایک جگہ بیان کیا کہ حسن اخلاق سے متصف انسانوں کے لئے جنت ہے۔حديث میں آیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّةَ فَقَالَ تَقْوَى اللَّهِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَسُئِلَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ فَقَالَ الْفَمُ وَالْفَرْجُ (جامع ترمذي: ٢٠٠٤)
ترجمہ : صحابى رسول جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گيا جو لوگوں کو بکثرت جنت میں داخل کرے گی تو آپ نے فرمایا: الله کا ڈر اور اچھے اخلاق پھر آپ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو بکثرت جہنم میں داخل کرے گی تو آپ نے فرمایا:’ منہ اور شرم گاہ.
نیز حسن اخلاق سے متصف انسانوں پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا۔حدیث پاک ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ سَهْلٍ. (جامع الترمذي: ٢٤٨٨)
ترجمہ : صحابي رسول جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے۔
اللہ رب العالمین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن اخلاق کا مجسمہ بنا کر مبعوث فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق عالیہ، اوصاف جمیلہ اور خصائل حمیدہ کے ذریعہ بڑے بڑے دشمنان اسلام کے دلوں کو موہ لیا اور انہیں اپنا گرویدہ بنالیا.
اخلاق، خُلق سے ہے،خُلق کے لغوی معنی ہیں، عادت، خصلت، رویہ، برتاؤ اور سلوک. اور حسن خلق سے مراد خوش اخلاقی، مروت، اچھا برتاؤ، اچھا رویہ اور اچھے اخلاق ہیں۔ انسانی زندگی میں حسن اخلاق کو جو اہمیت وعظمت اور نمایاں مقام اور مرتبہ حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اگر عادت اچھی اور شریعت اسلامیہ کے موافق ہے تو یہ حضرت انسان کی خوش بختی کی عظیم دلیل اور باری تعالیٰ کو پسند اور رب کائنات کے سامنے سرخروئی کا بہتر سامان ہے اور آخرت میں فلاح و ظفریابی کا ذریعہ ہے لیکن اگر انسان کی عادتیں بری ہوں، شریعت کے خلاف ہوں، اللہ تعالی کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں تو وہ باری تعالیٰ کے نزدیک بدبختی کی عظیم مثال ہے جس کا نتیجہ اس کی جانب سے مقرر کردہ سزائیں ہیں۔ اخلاق حسنہ سے متصف ہونے کےلئے شریعت نے ابھارا ہے نیز بد اخلاقی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اخلاق حسنہ کے کل دو زاویے ہیں:
پہلا زاویہ: الله تعالى کے ساتھ انسان بہترین معاملات کرے یعنی بندہ اللہ رب العالمین پر ایمان کامل رکھے اس کی ربوبیت، الوہیت اور اس کے اسماء و صفات پر مکمل ایمان رکھتے ہوئے اپنے جائز امور کو باری تعالیٰ سے طلب کرے شرک و بدعات، معاشرتی خرابیوں اور گمراہیوں نیز فتنہ و فساد سے دور رہ کر ایک اللہ کی عبادت و بندگی کرے فرائض و واجبات، سنن و نوافل اور مستحبات سے محبت کرے شریعت اسلامیہ کے مقرر کردہ اوامر کو بجالاتے ہوئے نواہی، اور معصیت کے کاموں سے من کل الوجوہ سختی سے اجتناب کرے اسی اللہ پر مکمل ایمان و ایقان اور توکل کرے اور اپنا قلبی و روحانی تعلق اللہ تعالیٰ سے رکھے، تمام کار خیر میں حسب بساط اور وسعت بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ وغیرہ
دوسرا زاویہ: بندے کا اپنے بھائی کے ساتھ اچھے معاملات کرنا ہے یعنی بندہ اپنے اسلامی بھائی کو اپنا بھائی سمجھے اس کی خوشی اور غم کو اپنی خوشی اور غم سمجھے پریشان کن حالات ہوں یا مصائب و آلام ہر ایک میں حسب وسعت اپنے بھائی کی مدد کرے، اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملے، معاملات و مسائل کو سنجیدگی اور متانت کے ساتھ مل جل کر حل کرنے کی کوشش کرے بلا وجہ غم و غصہ کا اظہار نہ کرے ہنس کر ملاقات کرے نیز آپسی میل و محبت کو برقرار رکھے۔ وغیرہ
اللہ رب العالمین نے نبی آخری الزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی عظیم وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وإِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم:٤) ترجمہ : اور بیشک آپ (ﷺ)اخلاق (حسنہ) کے اعلی مقام پر فائز ہیں.
مذكوره بالا آیت میں اللہ رب العزت نے دین اسلام، شریعت مطہرہ اور جملہ قرآنی تعلیمات کو خلق عظیم فرمایا ہے، جس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک قرآن کریم کی ایک ایک آیت کا عملی نمونہ تھی . حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، قَالَ : سَأَلْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ : أَخْبِرِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَتْ : كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ . (مسند احمد: ٢٥٣٠٢)
ترجمہ: جناب سعد بن هشام سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق بتلائیے تو آپ نے جوابا عرض کیا کہ آپ کے اخلاق کریمانہ قرآن مجید سے متصف تھے۔
حسن اخلاق یہ افراد اور قوموں کی نشاندھی کا ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اخلاق حسنہ، حسن معاشرت، شگفتگی و شائستگی، عمدہ اور بامقصد طرز زندگی نیز تمام شعبہ ہائے زندگی میں اچھے کردار بہترین برتاؤ اور حسن سلوک کا اچھا نمونہ اور عملی پیکر تھی، آپﷺ کی اسی شان کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا : ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ اْلقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِيْ الأَمْرِ﴾ (آل عمران:۱۵۹)
ترجمہ : بعد اس کے خدا ہی کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم رہے اور اگر آپ سخت زبان، سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے سب منتشر ہو جاتے، سو ان کو معاف کر دیجیے آپ ان کے لیے استغفار کیجیے اور ان سے خاص خاص باتوں میں مشورہ لیتے رہا کیجیے (تاکہ اس سے اور دونا ان کا جی خوش ہو جائے).
حتی کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ کی تعلیم، ترویج واشاعت اور اس کی طرف دعوت وتبلیغ کو اپنی بعثت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا : ”بُعِثْتُ ِلأُتَمِّمَ حُسْنَ الأخْلَاق“ (الموطا للإمام مالک، ص:۷۰۵)
ترجمہ: میری بعثت ہی اس لیے ہوئی ہے کہ میں حیاتِ انسانی میں اخلاقِ حسنہ کے فضائل کی تکمیل کروں. اور اسے کمال اور بام عروج پر پہنچاؤں، چنانچہ آپ ﷺ نے امت کو فاضلانہ و کریمانہ اخلاق و عادات سے متصف اور مزین کرنے کے لیے عملی نمونہ بھی پیش کیا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔ «أکمل المؤمنین إیمانا أحسنھم خُلقًا» ترجمہ: کامل ترین مومن وه ہے جو اپنے اخلاق میں سب سے بہتر ہو ۔
ہمارے لئے ایمانِ کامل اور خلق عظیم کی اعلیٰ ترین مثال حبیب کبریا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کو اپنائے بغیر نورِ ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ سیرت پاک کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ آپ ﷺ نے حق کی تبلیغ کیلئے خلقِ عظیم ہی کو اپنایا اور اسی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔
آپ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اخلاق حسنہ کو نہایت اہمیت دی ہے۔ صحابی رسول جناب نواس بن سمعان رضی ا للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے نیکی اور بدي کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:« الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالإِثْمُ مَا حَاكَ فِى صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ.
ترجمہ : نیکی: حسن خلق کا نام ہے اور بدي و گناہ: وہ ہے جو تیرے سینے (دل) میں کھٹکے اور لوگوں کا اس پر مطلع ہونا تجھے پسند نہ ہو۔(مسلم: 2553)
اچھے اخلاق سے متصف انسان اللہ سے اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے نیک بندوں سے قریب ہے.
عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا (الترمذي ٣٩٥٦)
ترجمہ: صحابی رسول جناب جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے نزدیک تم میں سے (دنیامیں) سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں.
جبکہ بد خلق اللہ سے اور اللہ کے نیک بندوں سے دور ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو حسن خلق کی خصوصی تعلیم دیتے تھے۔ آپﷺ نے اپنے ایک محترم صحابی جناب ابو ذر کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اتق الله حيثما كنت واتبع السيئة الحسنة تمحها وخالق الناس بخلق حسن.(الترمذي:1987)
ترجمہ: جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جو تم سے ہوجائے) بھلائی کرو جو برائی کو مٹادے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہترین اخلاق سے غایت درجہ متصف تھے اپنوں اور پرایوں کے ساتھ نرمی و رحمدلی، محبت و مودت، اخوت و بھائی چارگی کو اپناتے تھے اور انتہائی شفقت سے پیش آتے تھے چنانچہ آپ ﷺ کے خادم خاص معزز صحابی جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “
خَدَمْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، وَاللهِ مَا قَالَ لِي: أُفًّا قَطُّ، وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا؟ وَهَلَّا فَعَلْتَ كَذَا؟ ” (مسلم: ٦٠١١)
ترجمہ : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دس سال رہا، اللہ کی قسم آپ ﷺ نے مجھ سے کبھی اف تک نہیں کہا اور نہ کسی بات کے تعلق کے سے کہا کہ ایسا کیوں کیا؟ ایسا کیوں نہیں کیا؟.
گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہر اعتبار سے ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ اور آئڈیل ہے آپ کے جامع اخلاق اور نمایاں اوصاف کو ہمیں اپنے دلوں میں رچانا اور بسانا چاہئے اور بہترین اخلاق کے ذریعہ ماحول اور معاشرے میں فتنہ و فساد سے کراہتی انسانیت کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہئے۔ باری تعالیٰ ہمیں بہترین اخلاق کے زیور سے مالا مال کر دے۔ آمین