نئی دہلی،06اگست (ایچ ڈی نیوز)31 جولائی کو نوح میں ہوئے تشدد کے بعد انتظامیہ کی طرف سے گزشتہ چار دنوں سے مسلسل بلڈوزر کارروائی کی جا رہی ہے۔ لوگوں کے گھر اور دکانیں مسمار کی جا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ خوف کے ساتھ ساتھ ناراض بھی ہیں۔ بلڈوزر کی کارروائی کے حوالے سے اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ بغیر کسی اطلاع کے ان کے گھروں اور دکانوں کی توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ حالانکہ انتظامیہ نوٹس دینے کی بات کر رہی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ فسادات کے بعد ان کی برسوں کی محنت برباد ہوگئی۔میڈیاکی ٹیم نے اس سلسلے میں مقامی لوگوں سے بات کی۔
بزرگ خواتین بٹن اور زرینہ نے بتایا کہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی ایسا جھگڑا نہیں دیکھا اور نہ سنا۔ زمینیں اور جائیدادیں بیچ کر بچوں کے لیے دکانیں کھولی گئیں، تاکہ بے روزگاری کا مقابلہ کیا جا سکے، لیکن فسادات کے بعد ان کی ساری محنت برباد ہو گئی ہے۔دوسری جانب محمد مصطفیٰ اور عابد حسین کا کہنا تھا کہ میڈیکل کالج نہر کے باہر تمام برادریوں کی دکانیں ہیں۔ زیادہ تر دکانیں میڈیکل اسٹورز کی تھیں لیکن بلڈوزر نے سب کو تباہ کردیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کسی کو نوٹس نہیں دیا گیا۔ اس ملبے میں پورا سامان بھی دب گیا۔ ہر دکان میں 10-12 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان بتایا جا رہا ہے۔ اب عورتیں، بزرگ اور بچے اسی ملبے میں سے کچھ چننے کے لیے جمع ہیں۔تشدد کے دن سنیل موٹرس کے بائک گودام کو لوٹ کر آگ لگا دی گئی۔ اس دن بھی ہارون خان گودام کی حفاظت کر رہے تھے اور آج بھی ہارون خان اس پر کرسی رکھ کر گودام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ہارون خان نے بتایا کہ وقوعہ کے روز ہجوم دیکھ کر تالا لگا کر چلے گئے تھے۔ اس نے اس علاقے میں ایسا منظر پہلے نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے 62 سالہ ہارون سنیل موٹرز کے گودام میں چوکیدار کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اب بھی اسی عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔نوح کے تشدد کے بعد تخریب کاری کے حوالے سے لوگوں میں غصہ اور خوف پایا جاتا ہے۔ گزشتہ چار روز سے بلڈوزر رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ضلع نوح کے مختلف علاقوں میں اب تک سینکڑوں دکانیں، مکانات اور ٹھڈیاں مسمار کی جا چکی ہیں اور کئی ایکڑ سرکاری اراضی کو تجاوزات سے آزاد کرانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم بڑا سوال یہ ہے کہ جب سرکاری اراضی پر تجاوزات ہو رہی تھیں تو انتظامیہ کے اہلکار کیا کر رہے تھے اور آج انہیں تجاوزات ہٹانا کیوں یاد آ رہے ہیں۔