تل ابیب،24اکتوبر(ایچ ڈی نیوز)
اسرائیلی خاتون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قید کے دوران حماس نے ہمارے ساتھ اچھا برتاو¿کیا اور ہماری تمام ضرورتوں کو پورا کیا۔وہیل چیئر پر بیٹھی 85 سالہ لِفشِٹز نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کے اغواکار اسے غزہ لے گئے اور پھر گیلی زمین پر کئی کلومیٹر پیدل چل کر سرنگوں کے نیٹ ورک تک پہنچنے پر مجبور کیا جو مکڑی کے جالے کی طرح دکھائی دیتی تھی۔اسرائیلی خاتون نے کہا کہ یرغمال بنائے جانے کے دوران ڈاکٹر ہمارا معائنہ بھی کرتا رہا، ہر یرغمالی کی نگرانی کے لیے ایک گارڈ موجود تھا اور حماس کے ارکان کا رویہ ہمارے ساتھ بہت دوستانہ رہا۔انہوں نے تل ابیب کے ایک اسپتال میں میڈیا کو مزید بتایا کہ لڑکوں نے مجھے راستے میں مارا، انہوں نے میری پسلیاں نہیں توڑیں بلکہ مجھے چوٹ پہنچائی۔ لیکن غزہ پہنچنے کے بعد انہوں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا۔
لِفشِٹز، جس کے شوہر اب بھی حماس کے پاس یرغمال ہیں، نے کہا کہ انہیں اور چار دیگر افراد کو ایک کمرے میں لے جانے کے بعد اچھا سلوک کیا گیا، حالات صاف تھے اور انہیں ادویات سمیت طبی امداد فراہم کی گئی۔لِفشِٹز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ڈاکٹر ہر دو سے تین دن بعد ان کا اور دیگر قیدیوں معائنہ کرنے آتا تھا۔رہا ہونے والی اسرائیلی خاتون نے کہا کہ حفاظت پر مامور لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ لوگ قرآن پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔واضح رہے کہ فلسطین کے معصوم شہریوں پر اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے والی فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے انسانی بنیادوں پر 2 اسرائیلی یرغمالی خواتین کو پیر کو رہا کیا تھا۔