کتابوں کی اشاعت بڑی بات نہیں ہے، بڑی بات کتابوں کو نئی نسل کے ذہنوں کی خوراک بنانا ہے: ڈاکٹر حافظ کرناٹکی
بنگلور، 14 اکتوبر(ایچ ڈی نیوز)۔
آج بروز ہفتہ14 اکتوبر2023ئ کو گلشن زبیدہ میں مشہور شاعر خورشید اکرم سوز اور ان کی اہلیہ نزہت جہاں قیصر لاڈلی کی آمد کے موقع سے ایک استقبالیہ جلسہ منعقد کیاگیا۔ جس میں انہیں منثورو منظوم سپاس نامہ پیش کیاگیا اور ان کی مجموعی خدمات کے لیے کرناٹکا اردو چلڈرنس اکادمی کی طرف سے ایوارڈ تفویض کیاگیا۔ کرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی نے خورشید اکرم سوز کی مجموعی خدمات کے لیے ان کو ”علامہ اقبال“ایوارڈ سے نوازا تو ان کی اہلیہ کو ”ہاجرہ نازلی“ ایوارڈ سے سرفراز کیا۔
اس موقع سے ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کی کتاب ”یاد شکیب“کا اجرا بھی کیا گیا۔ اس جلسے کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے ادا کیے تو نظامت کے فرائض مولانا مفتی اظہر الدّین اظہر ندوی نے ادا کیے۔ شرکاءمیں انیس الرّحمان، محمد فیاض، ہچرایپّا، انجنئر محمد شعیب، ہیڈ ماسٹرعبدالعزیز، نذراللہ مڈی کے علاوہ بہت سارے اساتذہ بھی شامل تھے۔ صاحب کتاب ڈاکٹر حافظ کرناٹکی بھی اپنی بے انتہا مصروفیت کے باوجود کچھ وقت کے لیے تشریف لائے اور اپنی شرکت سے مجلس کے وقار میں اضافہ کیا۔
خورشید اکرم سوز اور ان کی اہلیہ تین دنوں سے ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کے مہمان تھے۔ انہوں نے کتابوں کے اجرا کے بعد دیار حافظ میں اپنے تین دن کے قیام کے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ؛
”ڈاکٹر حافظ کرناٹکی سے باالمشافہ یہ میری پہلی ملاقات ہے۔ ویسے میں برسوں سے ان کے جادو اثر قلم کا مداح ہوں، ہماری قربت اس وقت بہت زیادہ بڑھ گئی جب انہوں نے میرے جواں سال لائق فرزند کے حادثاتی وفات پر اپنی تعزیتی تحریر اور نظم سے نوازا۔ میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ جن لوگوں کی محبت نے مجھے اس جانکاہ صدمے کو برداشت کرنے کاحوصلہ دیا اس میں موصوف کا نام نامی سب سے اوپر ہے۔ ان کی اپنائیت نے بہت ڈھارس بندھائی۔ اور جب یہاں آکرگلشن زبیدہ میں قیام کیا تو ایسا محسوس ہواگویا بے قرار دل کو قرار آگیا ہو۔
موصوف کی ادبی خدمات کے بارے میں توصیفی کلمات کہنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔یہ ان کی شخصیت کا خلوص ہے کہ ایک ٹوٹے دل کا انسان ان کے پاس آکر راحت محسوس کرتا ہے اور اپنے زخموں پر ان کی محبت کو مسیحا صفت ڈاکٹر کاپھاہا سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ادارے میں غریب اور یتیم بچے نہ صرف یہ کہ تعلیم و تربیت کی دولت حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنائیت کے سرشار کردینے والے احساس سے بھی مالامال ہوتے ہیں۔ ان کا یہ تعلیمی گلشن سچ مچ ایک سرسبز وشاداب گلشن ہے کیوں کہ اس کے مالی ڈاکٹر حافظ کرناٹکی ہیں۔ یہ ان کی اپنائےت کی انتہا ہے کہ میں نے اپنے لخت جگر محمد شکیب اکرم کی وفات پر آئے تعزیتی خطوط و مضامین اور نظموں کو کتاب کی صورت میں ”ذکر تیرا بعد تیرے“کے نام سے شائع کروایا تو انہوں نے اس کتاب پر بھی ایک کتاب تحریر فرمادی اور اس کا نام ”یاد شکیب“رکھا گویا انہوں نے میرے غم کو اپنا غم بنالےا۔ میں موصوف کا اور کرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی اور بزم حافظ کا جتنا بھی شکرادا کروں کم ہے۔“
محترمہ نزہت جہاں قیصر لاڈلی نے اپنے تاثرات اور دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ؛
”میں نے اپنے لخت جگر کی جدائی کے غم کو اور دل کے زخموں کو اللہ کے بخشے صبر و تحمّل کی بدولت بہت سنبھال کررکھا ہے۔ دل کے پھٹنے والے انداز میں ایک بار اپنے ایک مخلص کے سامنے روئی تھی اور دوسری بار گلشن زبیدہ میں قدم رکھتے ہی روپڑی۔ ان کی محبت سے ایسا لگا جیسے بہت ہی محبت کرنے والے بھائی کا کندھامل گیا ہو اور بے اختیار دل چھلک اٹھا۔ ان کی اپنائیت، محبت اور عزت کا احساس اس دل میں ہمےشہ جاگزیں رہے گا۔میرے بھائی نے جس طرح گلشن زبیدہ کو سینچا ہے وہ ایک مثال ہے۔ آج ہماری قوم کو ایسے عظیم محسن کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ ان کو تادیر سلامت رکھے۔“
ڈاکٹر حافظ کرناٹکی نے اپنے مختصر مگر جامع خطاب میں کہا کہ؛
”دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، خورشیداکرم سوز صاحب اور نزہت جہاں قیصر صاحبہ کے غم نے مجھے بہت ملول کردیا۔ ان کے دکھوں نے مجھے بھی دکھی کردےا۔ اور اس دکھے دل سے جو کچھ بھی نکلا میں نے اسے تحریری شکل میں ان تک پہونچادیا۔ چوں کہ نظم و نثر دل سے نکلی تھی اس لیے دلوں تک رسائی حاصل کرنے میں دیر نہ لگی۔ اور پھر دلوں کے اس رشتے نے دوام حاصل کرلیا۔ رہی کتابوں کی باتیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اپنی کتابوں کے بارے میں مصنف کو خود زیادہ باتےں نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں کہ کتابوں کی اشاعت کے بعد اس پر قارئین کا حق ہوتا ہے۔ انہیں ہی اپنے تاثرات کا اظہار کرنا چاہئے۔ اور اپنی رائے قائم کرنی چاہئے۔
جہاں تک گلشن زبئدہ کی بات ہے تو اس میں شبہ نہیں ہے کہ میں اپنی استطاعت کے مطابق پوری ایمانداری اور محنت سے اسے سینچنے کی کوشش کرتا ہوں مگر اس میں ان تمام مخلصین کا حصّہ ہے جو اس ادارے کے بہی خواہ ہیں اور اپنی قوم و ملّت سے محبت کرتے ہیں۔ مدرسہ مدینة العلوم ہو کہ مدرسہ زبیدہ للبنات یا گلشن زبیدہ کے دوسرے تعلیمی ادارے، ان سبھوں کا مقصد خدمت ہے۔ تعلیم سے اپنی قوم و ملّت کے بچوں اور بچیوں کو آراستہ کرنے کا ایک خواب ہے۔ جس کی تعبیر کی کوشش جاری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ صرف کتابوں کی اشاعت یا شاعری کرنا ہی بڑی بات نہیں ہے، اس سے بڑی بات ان شعری و نثری کتابوں کو اور اس کی روشنی کو نئی نسل کے سینے میں منتقل کرنا اس سے بھی بڑی بات ہے۔ سو میں یہ کوشش شروع سے کررہا ہوں۔ اور انشاءاللہ آخری دم تک کرتا رہوں گا۔“
انیس الرّحمن نے کہا کہ؛
”خورشید اکرم سوز اور ان کی اہلیہ نزہت جہاں قیصر لاڈلی ہمارے معزز مہمان ہیں۔ دونوں ہی ادب کا ذوق رکھتے ہیں۔ اور دینی تعلیم کو اپنی فکر کا محور جانتے ہیں۔ ان کی خدمات کے پیش نظر ہی کرناٹکا چلڈرنس اردو اکادمی نے ان کے لیے ایوارڈ تفویض کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ دونوں حضرات اپنا ادبی سفر جاری رکھیں گے اور قوم و ملّت کی تعلیم وتربیت کے لیے بھی کام کرتے رہیں گے۔“
انجینئر محمد شعیب نے کہا کہ؛
”اتنی بڑی شخصیات کی موجودگی میں میرا بولنا زیادہ مناسب نہیں ہے۔ مگر ےہ درست ہے کہ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کی شخصیت کے خلوص کی وجہ سے ہمیشہ ہمیں بڑے بڑے شعرا و ادبا سے ملنے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔ اور ان ملاقاتوں سے ہم سب بہت کچھ سےکھتے ہیں جو ہمارے لیے نہایت مفید ہوتا ہے۔“
نذراللہ مڈی نے کہا کہ؛
”میں ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کو محض ایک شخص نہیں ایک تحریک سمجھتا ہوں، وہ جس فراخ دلی سے غریب اور یتیم طلبا کو اپنے تعلیمی اداروں میں جگہ دے کر ان کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی اپنائیت سے اپنے دوستوں، بہی خواہوں، ضرورت مندوں کا بھی استقبال کرتے ہیں۔ اسی لیے بڑی بڑی شخصیات گلشن زبیدہ میں کھنچی چلی آتی ہیں۔ اسی کی زندہ جاوید مثال خورشیداکرم سوز اور ان کی اہلیہ محترمہ نزہت جہاں قیصر لاڈلی صاحبہ ہیں۔ہم ان کا دلی خیر مقدم کرتے ہیں۔ اور ان کی آمد کو مبارک گردانتے ہےں۔“
فیاض صاحب نے کہا کہ؛
”حافظ صاحب کو جاننا اور سمجھنا ہو تو گلشن زبیدہ کی ایک بار ضرور سیر کرنی چاہئے۔ اور ان شخصیتوں کو دیکھناچاہےے جو ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو کر یہاں کھنچی چلی آتی ہیں۔ہم سبھی لوگ خورشید اکرم سوز اور محترمہ نزہت جہاں قیصر لاڈلی کی اپنائیت کی قدر کرتے ہیں۔ اور ان کی آمد اور ایوارڈ پر اپنی دلی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔“
جناب عبدالعزیز صاحب نے کہا کہ؛ ”اتنی بڑی شخصیت کی محبت پانا، اوران کی سرپرستی میں خدمت انجام دینا بہ ذات خود ایک نہایت خوشگوار تجربہ ہے۔ ان کی صحبت میں انسان اتنا سب کچھ پالیتا ہے جس کی اسے امیدبھی نہیں ہوتی ہے۔“ ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے کہا کہ؛ ” ہمارے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ خورشید اکرم سوز اوران کی اہلیہ نزہت جہاں قیصر یہاں تشریف لائیں اور کرناٹکا اردو اچلڈرنس اکادمی نے ان کے لئے ایوارڈ تفویض کیا۔ یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ آج حافظ کرناٹکی کی اہم کتاب ”یاد شکیب“ کا اجرا خورشید اکرم سوز کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ سو سے زائد کتابوں کے مصنف کی کسی نئی کتاب کا اجرا کرنا بھی کسی کے لئے بھی کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہوتا ہے۔ یہ حافظ کا خلوص ہے کہ وہ اس اعزاز سے اکثر اپنے چاہنے والوں کو سرفراز کرتے رہتے ہیں۔
میں یہاں ایک بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ جس انسان کی نیت جسی ہوتی ہے اور وہ جس طریقے سے زندگی میں پیسے کماتا ہے اس کے پیسے ویسے ہی کاموں میں لگتے ہیں۔ موصوف نے اپنی زندگی کی ساری کمائی قوم و ملّت کے بچوں کی تعلیم میں صرف کرنے کا جو جذبہ پایا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے دل میں قوم و ملّت کا کتنا درد ہے۔ ان کے وہ بہی خواہ جو انہی کی طرح خلوص دل سے قوم وملّت کے بچوں کی تعلیم کی فکر کرتے ہیں وہ بھی گاہے ماہے ان کے ہمقدم بنتے رہتے ہیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ جس طرح لوگ صحرا میں سائے کے متلاشی رہتے ہیں، اور مل جانے پر راحت کی سانس لیتے ہیں، بالکل اسی طرح کی شخصیت کے حامل ہیں حافظ صاحب کے سائے میں غریب و نادار اور یتیم طلبا و طالبات کے علاوہ سماج و معاشرے کے مستحق لوگ اور ان کے دوست و احباب بھی بے حد اطمینان و سکون محسوس کرتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی ہمارے سماج اور ملک و ملت کو بے حد ضرورت ہے۔جو سایہ کے ساتھ ساتھ پھل اور پھول بھی دے، اور جس کی قربت میں آدمی تحفظ اور عزت دونوں کے احساس سے سرشاری محسوس کرے۔“
ناظم جلسہ مولانا اظہرندوی نے نہ صرف یہ کہ نہایت کامیابی، خوش اسلوبی، اور علمی و ادبی سوجھ بوجھ کے ساتھ پورے جلسے کو ہمکنار کیا بلکہ نظامت کرتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا بھی بہت خوب صورت انداز میں اظہار کیا۔ اور وقفے وقفے سے بتاتے رہے کہ انہوں نے ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کی شاگردی میں کس طرح علمی اور ادبی مراحل سرکیے اور یہ کہ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کس خوش اسلوبی سے تربیت کے فرائض انجام دے کر کنکر کو ہیرا بنادینے کے ہنر میں ماہر ہیں۔انہوں نے جہاں خورشید اکرم سوز اور محترمہ نزہت جہاں قیصر لاڈلی کی شخصیت کی خصوصیات کو بار بار اجاگر کیا وہیں حافظ صاحب کی علمی، تخلیقی، ادبی، سماجی، فلاحی، رفاہی اور مدبرانہ شخصیت کے پہلووئں کو بھی خوبی سے اجاگر کیا۔
اس جلسے میں گلشن زبیدہ کے بچوں اور بچیوں نے ادبی اور ثقافتی پروگرام پیش کرکے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کیا۔ جسے دیکھ کر پتہ چل گیا کہ یہاں ادب اور تعلیم کو بچوں کی شخصیت میں کس طرح جذب کیا جاتا ہے۔ یہ کامیاب جلسہ ازہر ندوی کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہونچا۔
اگر میں یہ کہوں کہ جس طرح لوگ صحرا میں سائے کے متلاشی رہتے ہیں، اور مل جانے پر راحت کی سانس لیتے ہیں، بالکل اسی طرح کی شخصیت کے حامل ہیں حافظ صاحب کے سائے میں غریب و نادار اور یتیم طلبا و طالبات کے علاوہ سماج و معاشرے کے مستحق لوگ اور ان کے دوست و احباب بھی بے حد اطمینان و سکون محسوس کرتے ہیں۔ ایسے انسانوں کی ہمارے سماج اور ملک و ملت کو بے حد ضرورت ہے۔جو سایہ کے ساتھ ساتھ پھل اور پھول بھی دے، اور جس کی قربت میں آدمی تحفظ اور عزت دونوں کے احساس سے سرشاری محسوس کرے۔“
ناظم جلسہ مولانا اظہرندوی نے نہ صرف یہ کہ نہایت کامیابی، خوش اسلوبی، اور علمی و ادبی سوجھ بوجھ کے ساتھ پورے جلسے کو ہمکنار کیا بلکہ نظامت کرتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا بھی بہت خوب صورت انداز میں اظہار کیا۔ اور وقفے وقفے سے بتاتے رہے کہ انہوں نے ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کی شاگردی میں کس طرح علمی اور ادبی مراحل سرکیے اور یہ کہ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کس خوش اسلوبی سے تربیت کے فرائض انجام دے کر کنکر کو ہیرا بنادینے کے ہنر میں ماہر ہیں۔انہوں نے جہاں خورشید اکرم سوز اور محترمہ نزہت جہاں قیصر لاڈلی کی شخصیت کی خصوصیات کو بار بار اجاگر کیا وہیں حافظ صاحب کی علمی، تخلیقی، ادبی، سماجی، فلاحی، رفاہی اور مدبرانہ شخصیت کے پہلووئں کو بھی خوبی سے اجاگر کیا۔
اس جلسے میں گلشن زبیدہ کے بچوں اور بچیوں نے ادبی اور ثقافتی پروگرام پیش کرکے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کیا۔ جسے دیکھ کر پتہ چل گیا کہ یہاں ادب اور تعلیم کو بچوں کی شخصیت میں کس طرح جذب کیا جاتا ہے۔ یہ کامیاب جلسہ ازہر ندوی کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہونچا۔