وارانسی کی نچلی عدالت کی جانب سے گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دینے کے فیصلے کی مشترکہ پریس کانفرنس کرکے سخت مذمت کی
نئی دہلی،02فروری(ایچ ڈی نیوز)۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں ملک کی بڑی مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے آج آئی ٹی او میں مسجد عبد النبی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی اور فیصلہ کیا کہ گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی وارانسی نچلی عدالت کے ذریعے اجازت دیئے جانے کی شدید مذمت کی۔ اس فیصلے کو مکمل طور پر غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد دلائل پر مبنی قرار دیتے ہوئے انہوں نے انتظامیہ اور ہندو پارٹی کے درمیان ملی بھگت کا بھی الزام لگایا ہے۔ مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے اس معاملے پر ملک کے صدرجمہوریہ سے ملاقات کا وقت مانگا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف انڈیا سے ملاقات کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ انہیں اس کیس کے پورے عدالتی عمل سے آگاہ کیا جاسکے۔مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم پرسنل لاءبورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، جمعیة علماءہند کے صدر مولانا سیدارشد مدنی نے شرکت کی۔ امیر جماعت اہل حدیث مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی ، جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود مدنی، جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ملک معتصم خان، ایم پی اور اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی، مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس اور معاون ترجمان کمال فاروقی نے خطاب کیا۔
مسلم رہنماو¿ں نے آج ایک بار پھر واضح کیا کہ کسی چھینے یا زبردستی کی گئی جگہ پر مسجد نہیں بنائی جا سکتی۔ان کا کہنا ہے کہ گیانواپی مسجد اور دیگر تمام مساجد اسلام کے اصولوں کے مطابق زمین خرید کر تعمیر کی گئی ہیں۔ ایسی کوئی مسجد کی جگہ نہیں ہے جس پر جبراً یا چھین کر مسجد بنائے جانے کا کوئی ثبوت ملا ہے۔مسجد اسلام کا اہم حصہ ہے اور مساجد اسلامی اصولوں کے مطابق بنتی ہیں۔مسلم رہنماوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گیانواپی مسجد پر نچلی عدالت کے فیصلے سے ہندوستانی مسلمانوں میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ضلع جج اپنی سروس کے آخری دن گزشتہ روز یہ فیصلہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اور بے بنیاد معلومات پر مبنی جو فیصلہ دیا ہے اس نے انصاف پر لوگوں کا اعتماد کم کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیانواپی مسجد کے تہہ خانے میں کبھی کوئی مورتی نہیں تھی اور نہ ہی وہاں کوئی پوجا کی گئی تھی۔مسلم رہنماوں کا کہنا ہے کہ ایک جمہوری ملک میں عدالتوں پر ہمیشہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کا بھروسہ رہا ہے۔ لیکن حالیہ عدالتی فیصلوں کی وجہ سے مسلمانوں کابھروسہ ڈگمگانے لگا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ 1991 میں پارلیمنٹ کے پاس کردہ مذہبی مقامات کے تحفظ کے ایکٹ کو نافذ کرنے میں خاموشی اختیار کر رہی ہے۔ اگر سپریم کورٹ اس قانون کو سختی سے نافذ کرے تو نچلی عدالتیں کبھی ایسے فیصلے نہیں دیں گی۔ 1991 کا قانون اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مذہبی مقام کو اسی حالت میں برقرار رکھا جائے گا جو 15 اگست 1947 کو آزادی کے دن تک تھا، اس لیے ایسے تمام مسائل اس قانون پر سختی سے عمل کرنے سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مسلم رہنماوں نے کہا کہ انہوں نے صدر سے ملاقات کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہیں اور ان سے ملاقات کرکے وہ اپنے تمام مسائل ان کے سامنے رکھیں گے اور وہ ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے ملنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔