March 18, 2025
Hamari Duniya
دہلی

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی ’پنڈت رتن ناتھ سرشار‘ سمینار اختتام پذیر

Ghalib Institute

نئی دہلی،06 جولائی(ایچ ڈی نیوز)۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام دو روزہ بین الاقوامی سمینار بعنوان ’پنڈت رتن ناتھ سرشار: شخص، عہد اور تخلیقی جہات‘ اختتام پذیر ہوا۔ سمینار کے دوسرے روز 6/ جولائی کو چار ادبی اجلاس منعقد ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت بنارس ہندو یونیو رسٹی کے سابق صدر شعبہئ اردو پروفیسر یعقوب یاور نے کی۔ صدارتی گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ایسے دور میں جب کتابوں سے رغبت کم ہوتی جا رہی ہے مجھے یہ اجلاس اس اعتبار سے بہت اچھا لگا کہ اس میں سب نے تنقیدی بیانات پر انحصار کرنے کے بجائے متن پر توجہ صرف کی۔ اس اجلاس میں پروفیسر خالد اشرف کا مقالہ ’سرشار کا عہد‘، پروفیسر محمد کاظم کا مقالہ ’رتن ناتھ سرشار کا ہمزادنواب سید محمد آزاد‘ اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی کا مقالہ ’کامنی اور ہندوستانی تہذیب: ایک جائزہ‘ پیش کیا گیا۔ دوسرے اجلاس کی صدات سابق صدر شعبہئ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر خالد محمود نے کی۔ انھوں نے کہا کہ سرشار کے ناول اردو کا ایسا سرمایہ ہے جس کو پڑھ کر زبان کی نزاکت کے ساتھ تہذیب کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ ہمارا کوئی بڑا فکشن نگار نہیں ہے جو سرشار سے متاثر نہ ہو۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر خالد علوی نے ’سرشار کا طرز نگارش اور ان کے لغات‘، پروفیسر اسلم جمشید پوری نے ’رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری کا جائزہ ’پی کہاں‘ کے خصوصی حوالے سے‘ اور ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نے ’فسانہئ آزاد کل اور آج‘ کے عنوان سے مقالے پیش کیے۔

تیسرا اجلاس آن لائن ہوا جس کی صدارت ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنس اے۔ ایم۔ یو۔ پروفیسر شافع قدوائی نے کی۔ صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ خوجی کا کردار صرف ایک علاقے کو نہیں بلکہ پوری انسانی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان جو نہیں ہوتااس کی نقل کرتے وقت کتنا مضحکہ خیز بن جاتا ہے اس کی مثال خوجی ہے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری، پروفیسر اصغر ندیم سید اور پروفیسر ناصر نیر نے مقالات پیش کیے۔ چوتھے اور آخری اجلاس کی صدارت ڈاکٹر خالد علوی نے کی۔ اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ سرشار نے صرف تخلیقی زبان کا استعمال ہی نہیں کیا بلکہ بہت سارے نئے جملے بھی گھڑے ہیں۔ بعض تو انگریزی کی طرز پر خود بنائے ہیں اور بہت سارے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کے معنی لکھنوی لغات میں بھی نہیں ملتے جن کو ان کے سیاق سے سمجھنا پڑتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس سمینار کی وجہ سے اس طرح کے بہت سارے مسائل زیر بحث آئے جن پر کام کرنے کی ضرورت۔ اس اجلاس میں پروفیسر یعقوب یاور نے ’رتن ناتھ سرشار کا تخلیقی ذہن‘، ’پروفیسر غضنفر نے ’ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ‘، اور ڈاکٹر سفینہ نے ’پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول کڑم دھم کا تجزیاتی مطالعہ‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔دو دن کے سمینار میں علم و ادب کی اہم شخصیات کے علاوہ طلبا نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔    

Related posts

وژن 2026 نے 25ہزار خاندانوں تک رمضان کٹ پہونچا نے کا کام شروع کیا

Hamari Duniya

 بھاگوت جی کی باتوں کو سننا چاہیے اور اس پر عمل کرنا چاہیے: جمال صدیقی 

Hamari Duniya

آرام پارک میں مقامی جماعت اسلامی ہند کا ہفتہ واری پروگرام

Hamari Duniya