نئی دہلی:11اکتوبر:معروف صحافی آنجہانی جی ڈی چندن کے 102 ویں یوم پیدائش کے موقع پرغالب اکیڈمی کے زیر اہتمام” جی ڈی چندن کی صحافت “ کے عنوان سے یک روزہ سیمینارمنعقد کیا گیا۔سیمینار کی صدارت ڈاکٹر جی آر کنول نے کی۔انھوں نے کہا کہ چند ن صاحب انگریزی میں ایم اے تھے۔جرنلزم میں ڈپلومہ کیا تھا۔چندن صاحب خدائے صحافت تھے۔انھوں نے افسانے بھی لکھے۔قلمی اخبار بھی نکالے ۔انہوں نے بچپن میں ہی باغبان پورہ میں سب کچھ کرلیا۔ ان کی تین کتابیں اردو صحافت کا سفر،جام جہاں نما اور چندن صاحب کی نادر تحریریں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔باغبان پورہ میں ان کے والد تاجر تھے ان کے بیشتر دوست مسلمان تھے۔انگریزی اخبار اچھے ہوتے ہیں لیکن اردو اخبار کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ایڈیٹر اور گروپ ایڈیٹر جناب عبدالماجد نظامی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چندن صاحب ان لوگوں کو حوصلہ دیتے ہیںجو ایک مقصد کو حاصل کرکے رک جاتے ہیں۔ چندن صاحب زندگی بھر صحافت اور اردو کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے،ان کی شخصیت کو پورے ہندوستان میں متعارف کرانا چا ہیے۔ اس موقع پر عبدالباری مسعود نے کہاکہ چندن صاحب اردو سے محبت کرتے تھے۔آر این آئی کی رپورٹ کا تجزیہ کرتے تھے۔اردو قاری کے اضافے کی تدبیر پر غور کرتے تھے۔
اس موقع پر معین شاداب نے اپنے مقالے میں کہا کہ چندن صاحب نے صحافت پر اتنا کام کیا ہے کہ انہیں تہنیت پیش کرنا چاہیے۔ان کی کتابیں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چندن صاحب نے اپنی سوانح میں میاں افتخار الدین کا ذکر کرکے گم شدہ کڑی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے اردو میں جدید تکنیک کو اپنانے پر ہمیشہ زور دیا۔اس موقع پر ڈاکٹرشفیع ایوب نے ایک مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صحافی کی زبان الگ ہوتی ہے ۔ محقق کی زبان الگ ہوتی ہے۔جام جہاں نما ان کی کتاب1992میں آئی۔ انہوں نے تحقیق سے ثابت کیا کہ وہ اردو کا پہلا اخبار تھا اسے آج تک کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔اس موقع پر معصوم مرادآبادی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کے سیمینار میں سب صحافی ہیں۔ اردو ادب اور زبان کے فروغ میں صحافیوں نے بڑا کام کیا ہے۔چندن صاحب نے اپنا سارا وقت صحافت اور تحقیق میںلگایا۔چندن صاحب اردو صحافت کی بے لوث خدمت کرتے تھے۔سہیل انجم نے اپنی تقریر میں کہا کہ جی ڈی چندن سکولر ذہن کے مالک تھے۔ وہ مولانا آزاد کے عقیدت مند تھے۔ وہ الہلال کو انگریزی اخبار کے ہم پلہ بلکہ اس سے بڑا مانتے تھے۔
ڈاکٹر عقیل احمد نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ چندن صاحب بہت محنت کرتے تھے،سادہ زندگی گزارتے تھے۔سارے ذرائع ہوتے ہوئے بھی وہ پیدل،سائیکل یا بس سے چلتے تھے اپنا وقت پڑھنے لکھنے میں گزارتے تھے۔سیمینار کی نظامت ڈاکٹر یامین انصاری نے کی انہوں نے کہا کہ غالب اکیڈمی ہر سال جی ڈی چندن کی یاد میں ایک جلسے یا سیمینار کا اہتمام کرتی ہے جس میں اردو صحافت اور زبان پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔ اس موقع پر معصوم مراد آبادی کا مولفہ مونو گراف جی ڈی چندن کی رسم رونمائی ہوئی۔سیمینار کے آخر میں روزنامہ انقلاب، راشٹریہ سہارا، اخبار مشرق، روزنامہ میراوطن، سیاسی تقدیر، صدائے انصاری ،ہمارا سماج،اخبار مشرق سمیت دہلی کے مختلف اخباروں کے اردو صحافیوں، نامہ نگاروں اور فوٹو گرافروں کو مومنٹو تقسیم کئے گئے۔اس سیمینار میں متین امروہوی نے جی ڈی چندن کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔