مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 932267487
غزہ میں فلسطین اور اسرائیل کی جنگ کو زیادہ تر مسلمان مذہبی جنگ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں।لیکن یہ لڑائی مذہبی نہیں استعماری اور سامراجیت کی لڑائی ہے۔مسلمان یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کو جو حملھ کیا اس حملے کا مقصد مسجد الاقصیٰ کی بازیابی اور ایک آزاد اور خودمختار فلسطین ریاست کا قیام ہے۔ ہو سکتا ہے فلسطینی صحیح سمجھ رہے ہوں لیکن اس جنگ کے پیچھے جو بڑی طاقتیں کھیل کھیل رہے ہیں وہ اپنے اجارہ داری کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔لیکن کسی بھی لڑائی میں معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن یہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہیگا۔کیونکہ جنگ میں بربادی کےعلاوہ کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔بات تو ٹیبل پر بیٹھ کر ہی ہوتی ہے۔اسرائیل سات اکتوبر کے حماس کے حملے کے بعد غزہ میں اجتماعی قتل کر رہا ہے لیکن اس قتل کو رکوانے میں دنیا ناکام ہو چکی ہے
۔حالانکہ اسرائیل کا قیام 1948 میں بالفورد منصوبہ کے تحت مذہب کی بنیاد پر ہی ہوا تھا۔لیکن دراصل اس ریاست کا قیام اس وقت تک کی سامراجی طاقتیں امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک دنیا کے ہر ایک خطّے میں اپنے مفاد اور اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لئے اپنے پالے کا ایک ملک کھڑا کرنے کا تھا تاکہ دنیا کے اس خطّے کو اُنکی ضرورت محسوس ہوتی رہے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا دو حصوں میں منقسم ہو گئی تھی۔مشرقی وسطیٰ میں عدم استحکام بنا رہے اسلئے مذہب کی بنیاد پر اسرائیل بنا دیا گیا اور امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک نے اسے ہر طرح سے مضبوط کیا۔جس طرح چین 1948 میں آزاد ہوا اور آزادی کے بعد خانہ جنگی میں ماؤ تسے تنگ نے اس خانہ جنگی میں کامیابی حاصل کی اور چین کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تو چین کے دوسرے بڑے رہنماء چانگ کائی شیک جو تنگ سے خانہ جنگی میں بر سر پیکار تھے بھاگ کر تائیوان چلے گئے جسے چین آج بھی اپنے ملک کا حصہ بتا رہا ہے وہاں چانگ کائی نے اپنی حکومت قائم کر لی ۔چانگ کائی کی حکومت کو امریکہ اور یورپی ممالک ایک آزاد ملک کی حثیت سے قبول کر لیا اور اسی طرح بھارت کے ایک حصّے کو مذہب کے نام پر علاحدہ کر دیا گیا اور دنیا کے افق پر اسلامی مملکت پاکستان نمودار ہوا ۔بھارت اور پاکستان کے درمیان آج تک رسّہ کشی چل رہی ہے ۔امریکہ اور یورپی ممالک دونوں کو اپنے اسلحہ فروخت کرتے رہے ہیں ۔کبھی بھی امریکہ اور یورپی ممالک دونوں ممالک کے درمیان کی دشمنی کو ختم کرنے کا کام نہیں کیا ہے بلکہ جتنا ممکن ہو اُنکی طرف سے دشمنی کی ہوا دی جاتی رہی ہے ۔حالانکہ اس وقت کی سوویت اتحاد یونین نے امریکہ کے سامنے کیوبا میں کمیونسٹ حکومت کی حمایت کی اور کیوبا کی حکومت ہمیشہ امریکہ سے بے خوف ہو کر جیسے کو تیسا جواب دیتا رہا ہے حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان کبھی سیدھی جنگ نہیں ہوئی ہے ۔
سامراجی طاقتیں خوف و ڈر دکھا کر امن پسند ملکوں میں بھی سازشیں کر کے اندرونی ملک میں عدم استحکام پیدا کرتی رہی ہیں اور یہی اندرونی خلفشار اور عدم استحکام کے خوف سے خلیجی ممالک اسرائیل اور ایران سے الگ الگ امن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں ۔تاکہ مشرقی وسطیٰ میں طاقت کا توازن برقرار رہے ۔جب تک مشرقی وسطیٰ میں تیل ہے امریکہ اور یورپی ممالک اس خطّے سے اپنی نظر دوسری جانب نہیں کر سکتے ہیں۔تیل کی طاقت تو خلیجی ممالک کے پاس ہے لیکن اس طاقت سے خلیجی ممالک سائنس ،ٹیکنالوجی اور اسلحہ کے معاملے میں خود کفیل ہونے کی کوشش نہیں کی جسکا خمیازہ اُنہیں مغربی ممالک کے سامنے بے بس ہو کر برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔لیکن 7 جون کو حماس نے اسرائیل کے حفاظتی نظام کو درہم برہم کر کے اسرائیل کے اندر گھس گیا وہ نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ سعودی عرب سمیت زیادہ تر خلیجی ممالک کو ڈرا دیا ہے ۔لیکن جب کسی قوم کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ 7 اکتوبر کے حملے میں اسرائیل حفاظتی طاقتوں کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔اس خوف سے پورے اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل گیا یہاں تک کہ اسرائیلی افواج لڑنے کے لیے تیار نہیں تھی تب کہا جاتا ہے کہ امریکی افواج کو اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ مورچہ سنبھالنا پڑا۔فلسطینی خاص کر غزہ کے رہائشی جانتے ہیں کہ حماس اسرائیل کے ساتھ کچھ بھی کریگا اُسکا خمیازہ اُنہیں اٹھانا ہی پڑےگا۔آج غزہ میں وحشیانہ بمباری کے 25 دن ہو گئے ہیں اور آٹھ ہزار فلسطینی اس بمباری میں شہید ہو چکے ہیں اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں اسکے باوجود اسرائیل کی افواج غزہ میں گھسنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہے ۔حماس کے ٹنل کو ختم کرنے کے نام پر اسرائیل غزہ کے اسپتالوں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے کئے جا رہے ہیں ۔اسرائیل کو مضبوط دکھانے کے لئے امریکہ اسرائیل کی جنگی جرائم سے چشم پوشی کر رہا ہے ۔فلسطینیوں کی اور کتنی تباہی ہوگی یہ کہنا مشکل ہے ۔لیکن اسرائیل کی چولیں ہل چکی ہیں اور وہ اپنے وجود کو بچانے کی آخری لڑائی رہا ہے ۔اس لڑائی میں غزہ میں اسرائیلی قبضہ نہیں کر پائے تو مستقبل میں غزہ کے جانبازوں سے ٹکرانا اسرائیل کے لیے مشکل ہو جائے گا ۔اس جنگ کے خاتمے کے بعد مشرقی وسطیٰ کی سیاست الگ ہو جائیگی اور اسرائیل سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے وہ پڑوسی بھی تیار ہو جائینگے جو ابھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے میں ہیں۔اسرائیل امریکہ کے خلاف مشرق وسطی میں ایک بڑا محاذ تیار ہو جائےگا اور امریکہ کے لئے خطّے میں اپنے اڈّے بنائے رکھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے گا ۔ایران خطّے کا ایک بڑا پلیئر بن کر ابھر چکا ہے ۔چین اور روس خطّے میں انٹر کر چکا ہے۔امریکہ اور یورپ کے لئے مشرقی وسطیٰ ایک کھلا میدان تھا اب روس اور چین سے شدید مقابلہ آرائی کرنی پڑےگی۔اسلئے غزہ اور اسرائیل کی جنگ مذہب کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ دونوں بڑی طاقتوں کی خطّے میں اجاڑا داری کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔اس جنگ میں کس کی جیت ہوگی اور کون شکست کھائے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن اس جنگ میں انسانیت ضرور ہار رہا ہے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے ۔