نئی دہلی،20فروری(ایچ ڈی نیوز)۔
دہلی وقف بورڈ کی 123 جائیدادوں کا معاملہ آج کل گرم ہے۔ بورڈ کے صدر امانت اللہ خان نے آج دریا گنج میں بورڈ ہیڈکوارٹر میں میڈیا سے ملاقات کی ۔ مرکزی وزارت شہری ترقی کی جانب سے بورڈ کو ان جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی اطلاع دی گئی اور ان کے اور دہلی حکومت پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد اور مخالفین کا پروپیگنڈہ قرار دیا۔
امانت اللہ خان نے کہا کہ ایل اینڈ ڈی او نے 8 فروری 2023 کو دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین کو ایک خط جاری کیا ہے۔ جب کہ ایل اینڈ ڈی او کو ایسا لیٹر جاری کرنے کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ ابھی تک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس خط کے خلاف بورڈ نے ہائی کورٹ میں جا کر چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک 123 وقف املاک کا تعلق ہے، ان میں زیادہ تر مساجد، درگاہیں اور قبرستان ہیں۔ یہ سب بورڈ اور مسلمانوں کے قبضے میں ہیں، ان میں باقاعدگی سے نمازیں ادا کی جا رہی ہیں، بورڈ کی انتظامی کمیٹیاں وہاں انتظامات چلا رہی ہیں، یہ جائیدادیں بورڈ اور مسلمانوں کے پاس رہیں گی، انہیں کوئی نہیں لے سکتا۔
امانت اللہ خان نے بتایا کہ یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے، اس معاملے کا آغاز انگریزوں کے دور میں ہوا جب دارالحکومت کولکاتہ سے دہلی لایا جا رہا تھا، 1911 سے 1915 کے درمیان برطانوی حکومت نے یہ جائیدادیں حاصل کی تھیں، اس میں زیادہ تر درگاہیں، مساجد اور قبرستان وغیرہ تھیں۔ ان املاک کے متولیوں نے اپنی زمین حکومت کو دینے سے انکار کر دیا اور اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد ان زمینوں کے آگے سرکاری دولت مدار لکھا گیا جسے بعد میں ایل اینڈ ڈی او کہا گیا۔1970 میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس معاملے کو سلجھانے کے لیے بارنی کمیٹی تشکیل دی، بارنی کمیٹی نے حکومت کو کئی سفارشات دیںتھیں۔ حکومت کے 27 مارچ 1984 کے حکم کے مطابق ایل اینڈ ڈی او اور ڈی ڈی اے کو 123 جائیدادیں دہلی وقف بورڈ کو 1 روپے فی ایکڑ سالانہ لیز پر دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ انہیں 1 روپے کے سالانہ لیز پر دینے کے لئے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ یہ واحد نکتہ تھا جس پر اندرا پرستھ وشو ہندو پریشد کو عدالت سے اسٹے مل گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تمام وقف املاک، جس میں 90 فیصد مساجد، درگاہیں اور قبرستان شامل ہیں، مسلمانوں کو معاوضے کے ساتھ واپس کر دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سازش کے ایک حصے کے طور پر یہ نکتہ شامل کیا گیا کہ یہ تمام جائیدادیں ایک روپے سالانہ کی لیز پر دہلی واپس اور مسلمانوں کو واپس کی جائے۔ یہ معاملہ 30 سال تک جاری رہا اور یو پی اے حکومت نے اپنی آخری مرحلے میں ان تمام املاک کو ڈی نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ اس کے خلاف وی ایچ پی نے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے اس معاملے میں فیصلہ لینے کے لیے شہری ترقی کی وزارت کو مقرر کیا، جس نے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بات کہی، لیکن یہ رپورٹ دہلی وقف بورڈ نے پیش کی تھی۔ اس کے بعد موجودہ مرکزی حکومت نے 2 رکنی کمیٹی بنائی، جس کے خلاف دہلی وقف بورڈ نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی اور اب تک یہ معاملہ دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔