اسلاف نے مغربی تھیوریز کوہم پرتھوپا ہے:پر وفیسر نجمہ رحمانی
نئی دہلی،20دسمبر(ایچ ڈی نیوز)۔
نئے پرانے چراغ پروگرام کا تیسرا دن تحقیقی و تنقیدی اجلاس سے شرو ع ہوا، جس کی صدرات کے فرائض پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، پروفیسر شہزاد انجم اور پروفیسر نجمہ رحمانی نے انجام دیے۔ اس تنقیدی اجلاس میں کل نو مقالات پیش کیے گئے۔ خیالا ت کا اظہار کرتے ہوئے صدر محتر م پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدن نے فرمایا کہ ادب کے شہ پاروں اور ادیبوں کی شخصیات پر اگرآپ کچھ ایسا پیش کررہے ہیں جو ماقبل میں نہیں پیش کیا گیا ہے اور وہ بالکل نئی بات اور نیا تجزیہ ہے تو مقالہ نگاران کو چاہیے کہ اسی پر مدلل اور وضاحت سے بات کریںکیونکہ یہ اجتماعیت آپ کی تحریروں کو نمایاں کرے گا۔ پرو فیسر شہزاد انجم نے اپنے صدراتی خطاب میں فرمایا کہ اب ہم اس مرحلہ میں آچکے ہیں کہ تمامتر رجحانات و تحریکات کو رد کرتے ہوئے اپنی ہی فکر پیش کی جائے۔ لکھنے کے لیے ہمیشہ نئے پن کی ضرورت ہے۔ نئے موضوعات کو پیش کرنے میں ہی آپ کی شناخت ہے اور مقالات میں اختلاف و رد کے لیے کثیر مطالعہ کی ضرورت ہے۔ پرو فیسر نجمہ رحمانی نے صدراتی کلمات میں تمام مقالہ جات پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہہر مقالے نے ذہن میں سوالات قائم کیے اس کے لیے سبھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان مقالات کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ جن گوشو ں اور شخصیات پر عموماً بات نہیں ہوتی ہے انہیں پر گفتگو کی گئی ہے۔ مزید گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معافی کے ساتھ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہمارے اسلاف نے مغربی تھیوریز کو ہم پر تھوپا ہے جبکہ ہمارا مشرقی ادب مغربی ادب سے بالکل الگ ہے۔
اس اجلاس میں ساجدہ خاتون نے’ ترقی پسند ناولوں کے منفی کردار : ایک جائزہ “ ، محمد شاہ رخ عبیرنے ” جدید غزل اختصاصات ، تشخصات اور تضادات “ ، فیضان اشرف نے ” اردو میں جدید یت اور مابعد جدیدیت : ایک مطالعہ “، شاداب نے ” انشائ اللہ خاں انشاکی انفردایت اور رانی کیتکی کی کہانی “ ، سعدیہ پروین نے ” اردو تنقید میں تانیثی رجحان “ ، ہماکوثر نے ”جدید غزل کا منفرد شاعر : بانی “، صدف فاطمہ نے ” ترقی پسند شعری رجحان “ ، طریق العابدین نے ” وحید اختر اپنی غزلوں کے آئینے میں “ اور محمد آصف اقبال نے ” مجید امجد کی شاعری میں وقت کا تصور“ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جو اس اجتماع کا ساتواں پروگرام تھا۔ اس میں تخلیق کاروں نے افسانے اور انشائیے پیش کیے۔ اس اجلاس کی صدارت محترم اسد رضا ، ڈاکٹرنعیمہ جعفری پاشااور ڈاکٹر شمیم احمد نے کی۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے تخلیقات پر تاثرات پیش کرتے ہوئے صدارتی کلمات میں کہا کہ فکشن میںآج بھی افسانہ سب سے زیادہ مقبول صنف ہے۔مزید کہا کہ علامتی افسانے پڑھنے کے لیے زیادہ اور سننے سنانے کے لیے کم ہوتے ہیں۔اسد رضا صاحب نے تخلیقی اجلاس کے اپنے صدار تی خطاب میں کہا کہ نئے پرانے چرا غ میں نئے قلمکاروں کے ذریعہ جو موضوعاتی تنوع اور نئی تکنیک دیکھنے کو ملتی ہے وہ بہت ہی زیادہ خوش آئند ہے۔ انشائیہ اور طنز و مزاح میں صرف شگفتہ بیانی سے کام نہیں چلتا بلکہ اس میں پیغام بھی پوشیدہ ہونا چاہیے۔ڈاکٹرشمیم احمد نے کہا کہ انشائیہ کے حوالے سے بات کروں تو محمد توصیف خاں کا انشائیہ فنی اعتبار سے اچھا تھا بقیہ جو بھی افسانے سننے کو ملے وہ بہت ہی عمدہ تھے ، آج کی ٹوٹتی زبان میں عمدہ زبان بیان سننے کو ملا۔
اس اجلاس میں غزالہ قمر اعجاز نے” ٹشو پیپر“رخشندہ روحی نے” چاند کے پاس جو ستارہ ہے“تسنیم کوثر نے ” نوشتہ دیوار “ ، طاہرہ منظور نے” بارش“ چشمہ فاروقی نے”گونگی باجی “، نورین علی حق نے ”مخدوش لاش کا بیانیہ “ نوازش چودھری نے ”ناسٹالجک پولّن“ ، محمد توصیف خاں نے ”قبلہ مرزا کلاو?ڈی ہاو?ڈی“، ثمر جہاں نے ”دیا کبیرا روئے “، شفافاروقی نے ” ہمسفر“،نثار احمد نے”ماڈرن بزرگ “ اور نازیہ دانش نے ”خوابیدہ“ کے عناوین سے اپنی تخلیقات پیش کیں۔اجلاس میں پرو فیسر شہپر رسول ، پروفیسراحمد محفوظ ، پر وفیسر نعیم فلاحی ،ڈاکٹر شمع افرز زیدی، ڈاکٹر شاہ عالم ، ڈاکٹر عمران عندلیب، ڈاکٹر عادل حیات ،ڈاکٹر خالد مبشر ، ڈاکٹر یوسف رامپوری ، ڈاکٹر جاوید حسن ، ڈاکٹر محمد آدم ودیگر اساتذہ اور کثیر تعداد میں طلبہ موجود تھے۔