نئی دہلی،25اکتوبر(ایچ ڈی نیوز)۔
شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں “ادب سرائے” کے تحت رِسرچ اسکالرز اور ایم اے کے طلبہ و طالبات نے تخلیقی نشست کا اہتمام کیا جس میں افسانے اور شعری تخلیقات پیش کی گئیں جاوید عنبر مصباحی نے ’اسٹیپنی‘ محمد مصطفی نے ’حویلی‘ یونس رام پوری نے’ بے رغبتی‘ اور محمد طالب نے ’گوشہ نشینی‘ کے نام سے اپنا افسانہ سنایا۔اس کے علاوہ مصطفی زبر، عرفان علی بشر، خوشبو پروین، شاہ رخ عبیر، رضوان شکن، ندیم علی صوفی، محمد اقبال، اور نوشاد نادم نے اپنے شعری کلام سے سامعین کو لطف اندوز کیا. جبکہ نظامت کے فرائض عمران اعظم نے ادا کیے جس میں کچھ اشعار کافی پسند کئے گئے
جانے لگی جو روٹھ کر وہ پیکر ادا
یہ آخری ادا بھی لبھاتی چلی گئی
مصطفی زَبر
اک وہی شخص میری ہر کہانی ہر قصے میں آیا
جو میرا ہو کر بھی نہ میرے حصے میں آیا
عرفان علی بشر
گھنے بادل تو ہیں لیکن نہیں آثار بارش کے
عجب سا ہجر موسم ہے میں تشنہ ہو گئی ہوں نا
خوشبو پروین
ہو رہا ہے عشق میں تیرے بدن میرا حنوط
سرد مہری کے تیرے کتنے نشاں رکھتا ہوں میں
شاہ رخ عبیر
وہ رہے گا یا بچھڑے گا کچھ بتایا ہی نہیں
زندگی کٹ جاتی ہے سو میں نے پوچھا ہی نہیں
رضوان شکن
رواں ہے پیار کا دریا ملیں تو کیسے ملیں
کنارہ میں ہوں تو وہ بھی کنارہ لگتا ہے
ندیم علی صوفی
مانا کہ زمانے میں اداکار بہت ہیں
لیکن ہمیں تجھ سا اداکار نہیں ملتا
محمد اقبال
ہو گنہگار تو ہے ڈر کیسا
مٹ چکی اب تو پارسائی بھی
نوشاد نادم
اس موقع پروفیسر نجمہ رحمانی صاحبہ، صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی موجود رہیں جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسکالرز اور طلبہ کی اس کوشش کو سراہا اور ان کے تخلیقی کاوشوں پر خوشی کا اظہار کیا. کہا کہ تخلیقی صلاحیت کے بغیر ادب میں کوئی پہچان نہیں بنائی جا سکتی. لہذا اس ادبی نشست کو وسعت دی جائے. ڈاکٹر احمد امتیاز نے بھی تخلیقی اظہار کو طلبہ کی قوت قرار دیا اور کہا کہ یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو ادب میں نام پیدا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا. اس موقع پر انہوں نے اپنا کلام بھی سنایا
مجھے پچھلی شب کا ہی سرور ہے
میرے ساقی اب نہ پلا مجھے
ادب سرائے کی اس تخلیقی مجلس میں شعبہ اردو کے اسکالرز اور ایم اے کے طلبہ و طالبات کے علاوہ دیگر شعبہ جات کے طلبائ بھی کثیر تعداد میں شریک رہے۔
next post