39.9 C
Delhi
April 17, 2025
Hamari Duniya
علاقائی خبریں

گورکھپور: قاضی شہر مفتی ولی اللہ قاسمی کا انتقال

دارالعلوم فیض محمدی ہتھیا گڈھ میں تعزیتی نشست منعقد:

انجمن اسلامیہ کی ارتقائی پرواز اور دینی قلعہ سے خدام تیار کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ مرحوم کے لئے باعث صد افتخار ہے،ان کے انتقال سے علمی حلقوں کا ناقابل تلافی نقصان: قاری محمد طیب قاسمی

 آنند نگر/ مہراج گنج:2 جولائی ( عبید الرحمٰن/ایچ ڈی نیوز) شہر گورکھپور کی بزرگ شخصیت و قاضی شہر مفتی ولی اللہ قاسمی کے انتقال پر ملال پر دارالعلوم فیض محمدی ہتھیا گڈھ میں ایک تعزیتی نشست ادارہ کے سربراہ اعلیٰ مولانا قاری محمد طیب قاسمی کی صدارت میں منعقد ہوئی ،جس میں تمام اساتذہ کرام وطلبہ نے شرکت کرتے ہوئے تلاوت قرآن وآیات کریمہ کے ورد کے ذریعہ مرحوم کے حق میں ایصال ثواب کیا ۔  اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے دارالعلوم فیض محمدی کے سربراہ اعلیٰ مولانا قاری محمد طیب قاسمی نے کہا کہ: مفتی ولی اللہ قاسمی اہل گورکھپور کے لئے کوہ نور تھے ، ان کا شمار پروانچل کی مشہور شخصیات میں ہوتا تھا، وہ شہر کے تمام حلقو ں میں بے حد مقبول تھے، مجلس خواہ وہ علمی ہو یا سیاسی، دعوتی ہو یا تعزیتی ، ہر محفل میں آپ مدعو ہوتے ، تقریبا تین دہائی تک بڑی خاموشی کے ساتھ انجمن اسلامیہ میں درس وتدریس کی خدمات کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ تا دم واپس دارالقضاءکی ذمہ داری سنبھالتے رہے ، موصوف کی بے لوث خدمات نے انجمن اسلامیہ کی ارتقائی پرواز اور اس دینی قلعہ سے خدام دین تیار کرنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ مرحوم کے لئے باعث صد افتخار ، سرمایہ ہے آخرت اور تاقیامت پیہم ترقی و درجات اور تسکین روح کا باعث ہوگا۔دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ مولانا سعد رشید ندوی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ مفتی ولی اللہ کاانتقال ، امت مسلمہ بالخصوص اہالیان گورکھپور کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے، یقینا یہ ایسا غم ہے، جو ایک دولمحہ کا نہیں بلکہ صدیوں کا غم ہے، کیوں کہ شہر گورکھپور نے ایک ایسا چراغ شب تاب کھویا ہے، جس سے شہر میں منعقد ہونے والی تمام محفلیں روشن تھیں،جن میں تاریکی چھا گئی۔اس وقت یہ کہا جائے کہ علم وفن کا پیکر ، تعلیم وتزکیہ کا چشمہ خشک ہوگیاتو مبالغہ نہ ہوگا۔ بلاشبہ مرحوم اپنی ذات میں ، ایک انجمن تھے، شہر کے دینی ،تعلیمی ، سیاسی وغیر سیاسی اسٹیجوں پر گلدستہ کی طرح سجائے جاتے تھے ،لوگ دل وجان سے محبت کرتے تھے اور ان کے سامنے عقیدت مندانہ انداز میں جبین نیاز خم کرتے تھے ۔دارالعلوم کے مہتمم مولانا محی الدین قاسمی ندوی نے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: مفتی ولی اللہ کے انتقال سے شہر کے تمام ادبی ،علمی وسیاسی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے، میری جانکاری کے مطابق دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد تین دہائیوں تک انجمن اسلامیہ میں مدرسی کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ آپ نے ، دین دیا ل گورکھپور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور پھر اسی یونیورسٹی میں شعبہ فارسی میں ایک طویل عرصہ تک درس وتدریس کا فریضہ بھی انجام دیا ۔ اپنے رسوخ علم اور صلاح وتقویٰ کی بنیا دپر آخری عمر تک بڑی یکسوئی کے ساتھ دینی ، تعلیمی واصلاحی میدانوں میں سرگرم عمل رہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اپنے زہد وپرہیزگاری اور غیرمتنازع شخصیت بن کر شہر کی علمی وادبی حلقوں میں جو شہرت اور عزت ملی، وہ دوسروں کے حصہ میں کم آتی ہے ۔اس تعزیتی نشست کے موقع پر طلباءکے علاوہ اساتذہ کرام میں ، مفتی احسان الحق قاسمی، نائب مدیر : ماہ نامہ احیاءاسلام ،، مولانا محمد سعید قاسمی، مولانا ظل الرحمان ندوی ، مولانا وجہ القمر قاسمی، مفتی وصی الدین قاسمی، مولانا محمد صابر نعمانی، مولانا شکرااللہ قاسمی، مولانا محمد یحیٰ ندوی ، قاری حافظ ذبیح اللہ ، ماسٹر جاوید احمد ، قاری جمال احمد ، ماسٹر محمد عمرخان، ماسٹر فیض احمد وغیرہ شریک تھے۔

Related posts

اردو کلب شعبہ عربی، فارسی و اردو مدراس یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’اردو طلبا سمینار‘ کا انعقاد

Hamari Duniya

الفلاح فاؤنڈیشن (بلڈ ڈونیٹ گروپ) آئندہ برس سے ’خون عطیہ بیداری‘ ملک گیر تحریک چلائے گی: ذاکر حسین

Hamari Duniya

دارالعلوم زکریا دیوبند بزم انجمن رحمانی کا اختتامی پروگرام منعقد

Hamari Duniya