انقرہ،30مارچ۔ ترکیہ میں بلدیاتی انتخابات سے چند روز قبل فیوچر پارٹی کے سربراہ احمد داود اوغلو نے اپنے سابق اتحادی صدر رجب طیب ایردوآن کو اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ کی پٹی میں جنگ سے نمٹنے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے چند روز قبل اپنے ’ایکس‘ پلیٹ فارم اکاونٹ پر ٹویٹس میں ان پر امریکہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ ملی بھگت کا الزام بھی لگایا تھا۔
فیوچر پارٹی کے سربراہ جو پہلے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سے وابستہ تھے نے چند روز قبل ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیان میں ایردوآن پر سیاسی ’بے حیائی اور منافقت‘ کا الزام بھی لگایا۔انہوں نےکہا کہ ایردوآن غزہ جنگ میں لفظی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کو ترکیہ کی برآمدات خاص طور پر ہوابازی کے ایندھن کا تسلسل جو جنوری میں اپنے عروج پر پہنچ گیا۔رمضان کے دنوں میں غزہ میں نسل کشی جاری ہے اور طیب ایردوآن کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی برقرار ہیں‘۔
اس کے علاوہ انہوں نے ترکی کے صدر اور نیتن یاہو کے درمیان اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی ملاقات کے منٹس کے انکشاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ایردوآن پر الزام لگایا کہ انہوں نے نیتن یاہو سے اسرائیل کے ساتھ تجارت منقطع نہ کرنے کے وعدے کیے تھے۔انہوں نے کہا کہ “ترک صدر آج جو کچھ کر رہے ہیں وہ غزہ اور مظلوموں کے ساتھ ایک تاریخی غداری ہے“۔ انہوں نے کل اتوار کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد تل ابیب کو ترک برآمدات روکنے کے لیے حکمراں جماعت پر مزید دباو ڈالنے کا وعدہ کیا
احمد داود اوگلو کے بیانات نے سابق اتحادی پراس تنقید کے وقت اور مقاصد کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ترکیہ کے سیاسی تجزیہ کار آیڈین سیزر نے نشاندہی کی کہ “داود اوگلو کی حالیہ تنقید عرب دنیا کے لیے ایک پیغام ہے۔سیزر نے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ کو بتایا کہ “ایردوان غزہ میں لڑائی کے باوجود اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داود اوگلو ان پر تنقید کررہے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “بیانات کا وقت اندرونی اہداف بھی بتاتا ہے جو فیوچر پارٹی کے سربراہ کی خواہشات کے حصول کی کوشش ہے“۔انہوں نے مزید کہا کہ “داود اوگلو کل اتوار کو ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عرب ووٹروں کو متاثر کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے ایردوآن اور اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات پر تنقید کی”۔انہوں نے وضاحت کی کہ “اسرائیل کو برآمدات کا معاملہ انتخابی جنگ کے مرکز میں داخل ہوا، کیونکہ ویلفیئر پارٹی کے سربراہ فتح اربکان نے دو روز قبل ترک صدر سے تل ابیب کے ساتھ تجارت ختم کرنے اور نیٹو کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ترک تجزیہ کار نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ایردوآن فی الحال ترک مصنوعات اسرائیل کو برآمد کرنے سے متعلق فیصلے کریں گے۔انہوں نے کہا کہ “داود اوغلو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کے حوالے سے ایردوآن کا محاصرہ کرنا چاہتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ عرب ووٹرز سے اس کی شکایت کر رہے ہیں۔یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب ترکیہ میں 31 مارچ بہ روز اتوار کو ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات ہونے کی توقع ہے، کیونکہ حکمران جماعت دارالحکومت کی میونسپلٹیز بالخصوص انقرہ اور استنبول کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جسٹس پارٹی جون 2019 کے انتخابات میں ان شہروں میں بلدیاتی الیکشن ہار گئی تھی۔جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے استنبول کے میئر کے انتخابات میں سابق وزیر مرات کورم کو اپنے امیدوار کے طور پر منتخب کیا موجودہ میئر اکرم امام اوگلو جن کا تعلق ریپبلکن پیپلز پارٹی سے ہے کا مقابلہ کریں گے۔ملک بھر کی 36 سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کے ساتھ درجنوں آزاد امیدوار ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جن میں خاص طور پر “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی”، “ریپبلکن پیپلز پارٹی”، “کرد نواز” مساوات“، عوامی جمہوریت، “نیو ویلفیئر،” اور “گڈ پارٹی” جیسی جماعتیں شامل ہیں۔