اوٹاوا، 7 جنوری: کئی دنوں سے جاری قیاس آرائیوں پر بریک لگاتے ہوئے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کی رات حکمراں لبرل پارٹی کے رہنما اور وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے ٹروڈو نے کہا کہ دفتر میں خدمت کرنے کا مشکور ہوں۔ حالانکہ اگلے انتخابات کے لیے میں بہترین متبادل نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بہترین کوششوں کے باوجود پارلیمنٹ ایک ماہ تک تعطل کا شکار رہی لیکن وہ ایک جانباز ہیں جو ملک کی فکر کرتے ہیں۔
کینیڈین نیوز سی بی سی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ٹروڈو اپنے جانشین کے انتخاب تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ ٹروڈو کے استعفے کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ مقررہ وقت سے پہلے انتخابات کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔ 53 سالہ ٹروڈو نے کینیڈینوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ان کی پوری کوششوں کے باوجود ایک ماہ تک تعطل کا شکار رہی لیکن وہ ایک جانباز ہیں جو ملک کی فکر کرتے ہیں، میں اپنے ملک کی بہتری کے لیے لڑتا رہا ہوں، یہ لڑائی آگے بھی جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ لبرل پارٹی کے اندر اندرونی لڑائیاں چل رہی تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے پارٹی سربراہ اور کینیڈا کے وزیر اعظم کے عہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا۔
جسٹن ٹروڈو نے کہا، ’’میں نے گورنر جنرل کو مشورہ دیا تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے نئے اجلاس کی ضرورت ہے۔ میری درخواست منظور کر لی گئی ہے اور ایوان کی کارروائی 24 مارچ تک ملتوی رہے گی۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ جسٹن ٹروڈو نے اپنے عہدے سے ہٹنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباو کے بعد استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دریں اثنا، ٹروڈو کو کئی مسائل پر بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جن میں نجار کے قتل اور کھانے اور رہائش کی آسمان چھوتی قیمتوں پر بھارت کے خلاف بے بنیاد الزامات شامل ہیں۔