شیخ سرہندی حضرت مجدد الف ثانی کے ایک اقتباس میں یہ تحریر کندہ ہے۔”لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ “حضرت مجدد الف ثانی
سرہند سے ڈاکٹر عظمت اللّٰہ خان کیرانوی کی خصوصی رپورٹ
سرہند شریف:22جون(ایچ ڈی نیوز)دارالحکومت دہلی سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پرجانب مغرب صوبہ پنجاب میں واقع سرہند شریف میں آج دہلی کے وکلاء ،دانشور اور ضلع شاملی کے علماء کے ایک وفد نےپنجاب کے ضلع فتح گڑھ صاحب کے سر ہند اور گاؤں براس کا دورہ کیا۔ان مقامات مقدسہ کا تذکرہ تاریخی کتب اور قدیم رقعہ میں ملتا ہے۔ بر صغیر کے ہندو پاک کی تقسیم سے قبل صوبہ پنجاب کا بیشتر حصہ اہل اسلام اور بزرگان دین کی دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین، لہلہاتے کھیت، سرسبز و شاداب میدان، چراگاہوں اور مویشیوں سے لبریز علاقہ ہے۔ تقسیم برصغیر پاک و ہند سے قبل پنجاب پانچ ڈویژنز پر مشتمل تھا، جس میں لاہور، راولپنڈی ، ملتان ، جالندھر اور انبالہ شامل تھے۔ راولپنڈی ڈویژن میں اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، میانوالی اور شاہ پور کے اضلاع تھے۔ لاہور ڈویژن میں گوجرانوالہ، لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، امرتسر اور گورداسپور کے اضلاع شامل تھے۔ ملتان ڈویژن میں مینٹگمری (ساہیوال)، لائل پور(فیصل آباد)، ملتان، جھنگ، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان کے اضلاع تھے۔ جالندھر ڈویژن میں فیروز پور، لدھیانہ، ہوشیار پور، کانگڑہ کے اضلاع شامل تھے، جس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر تھی۔ انبالہ ڈویژن میں انبالہ، حصار، روہتک، کرنال اور شملہ کے اضلاع شامل تھے۔1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آزاد ریاستوں کو ملا کر کل آبادی تین کروڑ انتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں مسلمان 53.2 فیصد، ہندو 29.1 فیصد، سکھوں کی آبادی 14.9 فیصد جبکہ عیسائیوں کی آبادی 1.4 فیصد تھی۔ ہندو، سکھ اور مسلمان پنجاب کے مختلف اضلاع میں مل کر رہ رہے تھے۔ نسل، زبان اور مشترکہ ثقافت ان کے درمیان وجہ اشتراک تھی، جبکہ تمام ادیان کے ماننے والے دوسرے کے دینی جذبات اور رسومات کا بھی احترام کرتے تھے۔ ہندو اور سکھ مسلمان پیروں کے مرید تھے اور مسلمان ہندو اور سکھ ویدوں اور حکیموں سے علاج کروانے میں جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔ ہندو کھانے کے حوالے سے احتیاط کرتے تھے، تاہم مسلمانوں سے پکانے کی اشیاء لے لیتے تھے۔ آج بھی پنجاب بھر کے مختلف اضلاع میں ہندؤوں اور سکھوں کے مکانات، ماڑیاں اور حویلیاں موجود ہیں۔خیر تقسیم ہند میں پنجاب کی تاریخ طویل اور تلخ بھی ہے ،اس سر زمین کو مذہب اسلام کے دشمن مزا غلام احمد قادیانی نےناپاک اور غلیظ کرنے کی کوششیں کی وہیں علماء صوفیاء،سنتوں اوربزرگوں کی جاں فشانی نے پنج آب(پنجاب) کی ہی دھرتی سے ملک کو حکومت کے شرور و فتن سے نکالا اور بدعات کا استیصال کیا، جس کی مثال ملنا ناممکن ہی نہیں بلکہ الٹے گھڑے میں پانی بھر نے کے مترادف ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر رحمۃ نے اپنی تزک جہانگیری میں پنجاب کا لفظ استعمال کیا ہے۔برطانوی راج میں، صوبہ پنجاب ایک بڑا انتظامی خطہ تھا جس میں موجودہ ہندوستانی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، چندی گڑھ اور دہلی اور پنجاب کے پاکستانی علاقوں ٹیری آباد اور کیپیٹل شامل تھے۔ اس کی سرحدیں مغرب میں بلوچستان اور شمال مغربی سرحد، شمال میں جموں اور کشمیر، مشرق میں ہندی بیلٹ اور جنوب میں راجستھان اور سندھ سے ملتی ہیں۔پنجاب کا لفظ فارسی کے پنج یعنی پانچ اور آب یعنی پانی سے ماخوز ہے۔ یعنی پانچ دریاؤں کی سرزمین۔ یہ وہ پانچ دریا ہے جو اس علاقے میں بہتے ہیں۔ آج کل ان میں سے تین دریا تو مکمل طور پر پاکستانی پنجاب کے علاقوں میں بہتے ہیں۔ جبکہ دو دریاؤں کے مرکز بھارتی پنجاب سے ہو کر آتے ہیں۔ اس سے قبل اس کا نام سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین تھا۔دسویں صدی ہجری کے معروف عالم دین و صوفی شیخ احمد سر ہندی فاروقی(مجد الف ثانی رحمۃ) ابن شیخ عبد الا حد فاروقی۔ان اسلاف میں سے ہیں یے،جنہوں نے کلمہ حق کے لیے زندان کی صعوبتیں برداشت کی اور بادشاہ وقت کے سامنے سجدہ تعظیمی نہیں کیا۔وہیں مولانا محمد جعفر تھانیسری،شیخ جلال الدین تھانیسری،سکھوں کے پیشوا کہے جانے والے عبد المجید (گرو نانک) شیخ شرف الدین پانی پتی (بو علی شاہ قلندر و قطب ابدال)،شیخ محمد احمد پانی پتی ،جلال الدین محمود عثمانی پانی پتی،قاضی ثناءاللہ پانی پتی ،مولانا الطاف حسین حالی نے مذہب اسلام کی پاسبانی کی اور بدعات کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا۔غرض یہ کہ تاریخ پنجاب کے علماء،صوفیاء اور بزرگان دین کی قدردانی اور قربانی کو چند سطور میں نہیں سمیٹا جاسکتا،اس کے لیے بڑے سے بڑے دفتر درکار ہیں۔شیخ سرہندی کی پیدائش 26 جون 1564ء کو اوروفات10 دسمبر 1624ء کو ہوءی ۔آپ کا مرقد مبارک بستی پٹھانان سرہند ضلع فتح گڑھ صاحب میں ہے۔ آپ کے مشہور خلیفہ سید آدم بنوری ہیں۔امام ربانی شیخ احمد الفاروقی السرہندی کے والد شیخ عبد الاحد ایک ممتاز عالم دین تھے اور صوفی تھے۔ آپ نے صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فن حدیث حاصل کیا۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ تصوف میں سلسلہ چشتیہ کی تعلیم اپنے والد سے پائی، سلسلہ قادریہ اور سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیم دہلی جاکر خواجہ باقی باللہ سے حاصل کی۔ 1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالم اسلام کے مشائخ علما اور ارادتمند آکر آپ سے مستفید و مستفیض ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے۔ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر ہزار سال کے بعد تجدید دین کے لیے اللہ تعالیٰ ایک مجددمبعوث فرماتا ہے۔ چنانچہ علما کا اتفاق ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بعد دوسرے ہزار سال کے مجدد آپ ہی ہیں اسی لیے آپ کو مجدد الف ثانی کہتے ہیں۔مجدد الف ثانی مطلقاً تصوف کے مخالف نہیں تھے۔ آپ نے ایسے تصوف کی مخالفت کی جو شریعت کے تابع نہ ہو۔ قرآن و سنت کی پیروی اور ارکان اسلام پر عمل ہی آپ کے نزدیک کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ آپ کے مرشد خواجہ رضی الدین محمد باقی با اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان میں تصوف کا نقشبندی سلسلہ متعارف کرایا اور آپ نے اس سلسلہ کو ترقی دی۔مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب کے اقتباس میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:” لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ “ردِ روافض برصغیر میں اہل تشیع کے خلاف لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔ اس میں شیخ احمد سرہندی لکھتے ہیں:”علمائے ماوراء النہر نے فرمایا کہ جب شیعہ حضرات شیخین، ذی النورین اور ازدواج مطہرات کو گالی دیتے ہیں اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو بروئے شرع کافر ہوئے۔ لہذا بادشاہِ اسلام اور نیز عام لوگوں پر بحکم خداوندی اور اعلائے کلمة الحق کی خاطر واجب و لازم ہے کہ ان کو قتل کریں، ان کا قلع قمع کریں، ان کے مکانات کو برباد و ویران کریں اور ان کے مال و اسباب کو چھین لیں۔ یہ سب مسلمانوں کے لیے جائز و روا ہے”البتہ چونکہ شیخ احمد سرہندی کا اس وقت معاشرے پر اتنا اثر نہ تھا، مغل دور کا ہندوستان صلح کل پر کاربند رہا۔ آپ کے خیالات آپ کی وفات کے سو سال بعد شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان نے زیادہ مقبول بنائے۔شاہ ولی الله نے شیخ احمد سرہندی کی کتاب “رد روافض” کا عربی میں ترجمہ بعنوان”المقدمۃ السنیہ فی الانتصار للفرقۃ السنیہ”کیا۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا سلسلہ 1820ء میں شروع ہوا جب سید احمد بریلوی نے اپنے مجاہدین کو امام بارگاہوں پر حملے کے لیے ابھارا۔ پروفیسر باربرا مٹکاف لکھتی ہیں:” دوسری قسم کے امور جن سے سید احمد بریلوی شدید پرخاش رکھتے تھے ، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا:’ایک سچے مومن کو طاقت کے استعمال کے ذریعے تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہئیے۔اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہئیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہئیے‘۔سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں نے ، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے جلائے جانے کاذکر کیا ہے“مجدد الف ثانی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دور ابتلا سے بھی گذرنا پڑا۔ بعض امرا نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا:” سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔ “بادشاہ نے ہر ممکن کوشش کی کہ شیخ جھک جائیں لیکن مجدد الف ثانی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ بعض امرا نے بادشاہ کو آپ کے قتل کا مشورہ دیا۔ غیر معمولی اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ تو نہ ہو سکا البتہ آپ کو گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ آپ نے قلعے کے اندر ہی تبلیغ شروع کر دی اور وہاں کئی غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔ قلعہ میں متعین فوج میں بھی آپ کو کافی اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ بالآخر جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور آپ کو رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد جہانگیر نے آپ کو اپنے لشکر کے ساتھ ہی رکھا۔آ،پ کی نایاب تصنیفات میں
اثبات النبوۃ
رسالہ تہلیلیہ
رد روافض
شرح رباعیات
معارف لدنیہ
مبدا و معاد
مکاشفات عینیہ
مکتوبات امام ربانی
رسالہ جذب و سلوک
تعلیقات عوارف المعارف
رسالہ آداب المریدین
رسالہ اثبات الواجب
رسالہ علم حدیث
رسالہ حالات خواجگان نقشبندان تصانیف میں اول الذکر آٹھ کتابیں طبع ہو چکی ہیں باقی تصانیف کا ذکر تذکروں میں ملتا تو ہے لیکن نایاب ہیں۔
مجدد الف ثانی کے سات بیٹے اور تین صاحبزادیاں تھیں جن کے نام یوں ہیں:
صاحبزادگان
خواجہ محمد صادق
خواجہ محمد سعید
خواجہ محمد معصوم
خواجہ محمد فرخ
خواجہ محمد عیسیٰ
خواجہ محمد اشرف
خواجہ محمد یحیی
تین صاحب زادیاں
بی بی رقیہ بانو
بی بی خدیجہ بانو
بی بی ام کلثوم
آپ کا سلسلہ شیوخ
خلفاء ہے حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ مجدد الف ثانی علامہ اقبال کے نزدیک ہندوستان میں جن اولیائے کرام نے اسلام کی تبلیغ کو عملی جامہ پہنایا اُن میں آپ کا نام سرِ فہرست ہے۔ علامہ اقبال کو آپ سے دلی عقیدت تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال نے آپ کی بے باکی کو خوب سراہا اورکہا:
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار
وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں
اللہ نے بر و قت کیا جس کو خبردار
علامہ اقبال نے بالِ جبریل کی نظم ’پنجاب کے پیرزادوں سے‘ کے عنوان سے آپ کی شخصیت کو اُجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی شاعری اور نثر دونوں میں آپ کے افکار کی ترجمانی کی ہے۔ آپ کا مزار سرہند (بھارت) میں ہے.
یہ وفد بعد میں سرہند کی مشرقی جانب براس(پھیرنی) گاؤں میں پہنچا جہاں پر 9 انبیاء کے مزارات پر پہنچ کر فیض حاصل کیا۔انبیاء کی آرام گاہ کے خادم قاری توصیف کیرانوی نے بتایاکہ پنجاب میں سر ہند سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پریہ گاؤں براس کے نام سے جا جاتا ہے ایسی تیرہ قبریں ہیں.جن کے بارے میں حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی (مجدد الف ثانی) نے ایک مرتبہ یہاں ظہر کی نماز ادا کی؛ اس وقت ان کو کشف ہوا کہ اس گاؤں میں انبیاء مدفون ہیں، جن کو اللہ نے اس علاقے کی ہدایت کے لئے بھیجا تھا. حکیم الامت، مجدد ملت، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، اور دار العلوم دیوبند کے مہتمم ثانی، حضرت مولانا رفیع الدین دیوبندی بھی یہاں زیارت کے لئے آ چکے ہیں. اگرچہ حضرت تھانوی کے بقول یہاں کے سب کے سب نبی نہیں، بلکہ بعض نبی تھے.پنجاب کے اس دور افتادہ گاؤں میں آج بھی کوئ دو منزلہ مکان نہیں بناتا اور نہ کوئ اپنے گھر کی چھت پر سوتا ہے، اور یہ محض ان نبیوں کی عقیدت کے پیشِ نظر جو یہاں مدفون ہیں.اس گاؤں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک عظیم مثال ملتی ہے.مقبرہ ایک اونچے چبوترے پر ہے، گاؤں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں(سکھوں) کے لئے اس قدر محترم ہے کہ مدت مدید سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ کوئ گھر اس سے زیادہ اونچا نہ رہے. اسی جذبے کے باعث کوئ اپنے گھر کی چھت پر سوتا بھی نہیں ہے. مزار کے قریب مسجد ہے اور ایک مدرسہ بھی ہے۔جس کے بانی حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی ہیں ،ان کے نام سے بعد میں افتخار یہ لائے بریری کا قیام عمل میں آیا ۔مسجد اور ایک مینار تعمیر کیاگیا ۔جس کو مالیر کوٹلہ کے ڈاکٹر صاحب نے تعمیر کرایا ہے۔مزارات تزئین کاری اور سفید پتھرکا فرش قابل دید پے۔وفد میں مولانا برکت اللّٰہ امینی ،ایچ آر خان ایڈووکیٹ (سپریم کورٹ) دانشور قسیم خان،شبیر احمد،صحافی انتظار انصاری ،شہزاد باغبان اور ناچیر عظمت اللّٰہ خان کے نام قابل ذکر ہیں ۔