نئی دہلی۔ بلقیس بانو نے اجتماعی زیادتی کیس میں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ 13 مئی کے حکم نامے پر نظر ثانی کی جائے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ وہ نظرثانی درخواست کو دیکھنے کے بعد فہرست میں ڈالنے پر غور کریں گے۔
آج بلقیس بانو کی طرف سے وکیل شوبھا گپتا نے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ کے سامنے اس عرضی کا ذکر کرتے ہوئے سماعت کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد عدالت نے عرضی کو دیکھ کر فہرست بنانے پر غور کرنے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے 13 مئی کے اپنے حکم میں کہا تھا کہ 1992 میں بنائے گئے قوانین گینگ ریپ کے مجرموں کی رہائی کے لیے لاگو ہوں گے۔ اس بنیاد پر 11 مجرموں کو رہا کیا گیا ہے۔
21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن کی طرف سے دائر عرضی کو مرکزی عرضی کے ساتھ ٹیگ کرنے کا حکم دیا۔ درخواست میں گجرات حکومت کے قصورواروں کی رہائی کے حکم کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 17 اکتوبر کو گجرات حکومت نے ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا کہ بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے مجرموں کو 14 سال کی سزا مکمل کرنے اور جیل میں ان کے اچھے برتاو¿ کی وجہ سے رہا کیا گیا ہے۔ مجرموں کی رہائی مرکزی حکومت کی اجازت کے بعد کی گئی۔ گجرات حکومت نے کہا تھا کہ مجرموں کی رہائی کا فیصلہ سپریم کورٹ کے 9 جولائی 1992 کو قیدیوں کی رہائی کے رہنما خطوط کی بنیاد پر لیا گیا تھا نہ کہ آزادی کے امرت مہوتسو کی وجہ سے۔ گجرات حکومت نے کہا کہ ایس پی ، سی بی آئی، سی بی آئی کے خصوصی جج نے بلقیس بانو کے قصورواروں کی قبل از وقت رہائی کی مخالفت کی تھی۔
24 ستمبر کو بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے مجرموں نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کیا۔ جواب میں کہا گیا کہ گجرات حکومت کا انہیں رہا کرنے کا فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔ ان کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی گزار سبھاشنی علی اور مہوا موئترا کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فوجداری کیس میں تیسرے فریق کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مجرموں کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو گجرات حکومت اور نہ ہی متاثرہ نے ان کی رہائی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے۔ اس معاملے میں شکایت کنندہ نے بھی عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ ایسی صورت حال میں قانون کے قائم کردہ عقائد کی خلاف ورزی ہوگی۔