نئی دہلی، 11 مارچ(ہ س)۔
پروفیسر احتشام الحق قریشی (سابق پرنسپل اور ڈین فیکلٹی آیورویدک اور یونانی یونیورسٹی، کانپور) کا دہلی پہنچنے پر آل انڈیا یونانی طبّی کانگریس کے دریا گنج واقع دفتر میں پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر پروفیسر محمد آفتاب احمد، ڈاکٹر مرزا آصف بیگ، ڈاکٹر سراج عظیم، اسرار احمد اجینی، محمد اویس گورکھپوری اور محمد عمران قنوجی وغیرہ بھی موجود تھے۔
اس موقع پر آل انڈیا یونانی طبی کانگریس کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر سید احمد خاں نے پروفیسر احتشام الحق قریشی کے استقبالیہ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خدمات کو سنہرے دور کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ آج ان کا دہلی آنا ہم سب کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ ان کی تجاویز اور مشورہ سے ہمیں طب یونانی کو آگے بڑھانے اور اس کی تشہیر کرنے میں رہنمائی ملی ہے۔
اس موقع پر پروفیسر احتشام الحق قریشی نے کہا کہ حکومت کا طب یونانی کے حوالے سے رویہ تسلی بخش نہیں ہے اور این سی آئی ایس ایم میں طب یونانی کے کسی شخص کو اہم مقام نہ ملنا اور بی یو ایم ایس میں بوقت داخلہ اردو کی لازمیت ختم کرنا طب یونانی کو تباہ کرنے جیسا قدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی سی آئی ایم میں ایسا نہیں تھا، وہاں ہم آیوروید کے مساوی حق رکھتے تھے۔ اس لیے یونانی طریقہ علاج سے جڑے لوگوں کو بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، سب کا اعتماد جیتنے کے لیے انصاف کا پیمانہ ایک ہونا چاہیے۔ اردو سے بھی یہی رشتہ ہے، اردو ہندوستان کی زبان ہے اور اس ہندوستانی زبان میں یونانی طریقہ علاج پڑھا جاتا ہے نیز اردو زبان طب یونانی کے لیے اہم ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، اردو یونانی کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔