از- نریندر مودی وزیر اعظم ہند
چند روز قبل ہم نے پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کو کھویا ہے۔ ہمارے ملک نے ایک ایسا صاحب بصیرت کھو دیا ہے جس نے زرعی سائنس کو انقلاب سے ہمکنار کیا۔ ایک ایسی جید شخصیت بھارت کے تئیں جس کے تعاون کو سنہری حروف میں رقم کیا جائے گا۔ پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن بھارت سے محبت کرتے تھے اور چاہتے تھےکہ ہمارا ملک اور بطور خاص ہمارے کاشتکار خوشحالی کی زندگی بسر کریں۔ تعلیمی لحاظ سے ازحد تیز انہوں نے اپنے لیے کوئی بھی بہتر مستقبل کا انتخاب کر لیا ہوتا، تاہم وہ 1943 کے بنگال کے قحط سے اس حد تک متاثر تھے کہ اگر انہیں زندگی میں کچھ کرنا ہے تو وہ صرف زراعت کا مطالعہ کریں گے۔
نسبتاً اوائل عمری میں ہی وہ ڈاکٹر نارمن بورلاگ کے رابطے میں آگئے اور انہوں نے تفصیل کے ساتھ ان کے کام کو آگے بڑھایا۔ 1950 کے دہے میں انہیں امریکہ میں استاد کے عہدے کی پیشکش کی گئی تاہم انہوں نے اسے مسترد کر دیا کیونکہ وہ بھارت میں اور بھارت کے لیے کام کرنا چاہتے تھے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ ان چنوتیوں کو اپنے ذہن میں لائیں جن کے مدمقابل ڈٹ کر کھڑے ہوئے اور انہوں نے ہمارے ملک کی رہنمائی خودکفالت اور خود اعتمادی کی جانب کی۔ آزادی کے بعد سے آگے کے دو دہوں میں ہم زبردست چنوتیوں سے نبردآزما تھے، ان میں سے ایک تھی خوراک کی قلت۔ 1960 کی دہائی کے اوائل میں بھارت ہر سو چھائی ہوئی قحط کی پرچھائی سے نبرد آزما تھا اور یہی وقت تھا جب پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن نے اپنی غیر متزلزل عہدبندگی سے زرعی خوشحالی کا ایک نیا عہد متعارف کرایا۔ زراعت اور مخصوص شعبوں مثلاً گیہوں کی افزائش کے سلسلے میں انہوں نے پیش رو بن کر جو کام انجام دیے اس کے نتیجے میں گیہوں کی پیداوار میں اضافہ رونما ہوا۔ بھارت خوراک کی قلت والے ملک سے خود کفیل ملک بن گیا۔ اس زبردست حصولیابی نے انہیں بجا طور پر بھارتی سبز انقلاب کے بانی کا درجہ دلا دیا۔
سبز انقلاب نے بھارت کے ’کر سکتے ہیں کے جذبے ‘کی جھلک نمایاں کی- یعنی یہ ثابت ہوا کہ اگر ہمارے سامنے بے شمار چنوتیاں ہوں تو ان کے بالمقابل ہمارے پاس بے شمار اذہان بھی ہیں جن کے اندر اختراع کی رمق موجود ہے جو ان چنوتیوں پر قابو حاصل کر سکتے ہیں۔ سبز انقلاب کے آغاز کی پانچ دہائیوں کےبعد بھارتی زراعت کہیں زیادہ جدید اور ترقی پسند ہوگئی ہے۔ تاہم پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کے ذریعہ ڈالی گئی بنیاد کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
گذشتہ برسوں میں انہوں نے آلو کی فصل کو متاثر کرنے والے طفیلی کیڑوں سے نمٹنے کی پیش رو تحقیق کا کام سنبھالا۔ ان کی تحقیق نے آلو کی فصل کو سرد موسم کی شدت جھیلنے لائق بنا دیا۔ آج پوری دنیا باجرے یا شری اَن کی بات کر رہی ہے اور اسے عمدہ ترین غذا قرار دے رہی ہے تاہم ایم ایس سوامی ناتھن نے 1960 کی دہائی میں ہی باجروں کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
ایم ایس سوامی ناتھن کے ساتھ میرا ذاتی ربط و ضبط کافی وسیع تر تھا۔ یہ ربط و ضبط اس وقت شروع ہوا جب میں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر 2001 میں عہدہ سنبھالا۔ ان دنوں گجرات زرعی قوت کے لیے معروف نہیں تھا ۔ یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی خوشک سالی اور سوپر سائیکلون اور زلزلے نے ریاست کی ترقی کے راستے پر اثرات مرتب کیے تھے۔ ہم نے متعدد پہل قدمیوں کا آغاز کیا تھا، ان میں سے مٹی کی صحت کا کارڈ بھی تھی جس نے ہمیں مٹی کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کے ذریعہ اٹھنے والے مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اسی اسکیم کے پس منظر میں میں نے پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن سے ملاقات کی۔ انہوں نے اسکیم کی سفارش کی اور اس کے لیے اپنی بیش قیمت تجاویز بھی پیش کیں۔ ان کی جانب سے حاصل ہوئی توثیق ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی تھی جنہیں اس اسکیم کے بارے میں تشکیک لاحق تھی جو آخر کار گجرات کی زرعی کامیابی کے لیے زمین ہموار کرنے والی تھی۔
بطور وزیر اعلیٰ میری مدت کار کے دوران ان کے ساتھ میرا ربط ضبط جاری رہا اور جب میں نے وزیر اعظم کے طور پر عہدہ سنبھالا تب بھی میں ان کے رابطے میں تھا۔ میں نے 2016 میں بین الاقوامی زرعی حیاتیاتی تنوع کانگریس اور آئندہ برس 2017 میں ان سے ملاقات کی۔ میں نے ان کے ذریعہ تحریر کردہ کتاب کے دوجلدوں والے سلسلے کا اجراء کیا۔
کورل میں کاشتکاروں کو وہ رابطہ قرار دیا گیا ہے جو دنیا کو مربوط رکھتا ہے کیونکہ کاشتکار ہی ہیں جو سب کی بقا کے ضامن ہیں۔ ایم ایس سوامی ناتھن نے اس اصول کو بہت اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ بے شمار لوگ انہیں کرشی ویگکیانک -ایک زرعی سائنس داں پکارتے ہیں تاہم میں نے ہمیشہ اس بات میں یقین کیا کہ وہ اس سے بھی کہیں زیادہ عظیم تر شخصیت تھے۔ وہ صحیح معنوں میں کسان وگیانک یعنی کاشتکاروں کے سائنس داں تھے۔ ان کے دل کے اندر ایک کاشتکار موجود تھا۔ ان کے کام کی کامیابی ان کی علمی عمدگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان اثرات میں بھی مضمر ہے جو تجربہ گاہوں سے باہر مرتب ہوتے ہیں یعنی زرعی میدانوں اور کھیتوں میں نظر آتے ہیں۔ ان کے کام نے سائنسی علم اور اس کے عملی استعمال کے مابین واقع فاصلے کو کم سے کم کر دیا۔ انہوں نے لگاتار ہمہ گیر زراعت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی ترقی اور معیشت حیوانات کی ہمہ گیری کے مابین نفیس توازن برقرار رہنا ضروری ہے۔ یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایم ایس سوامی ناتھن کی جانب سے چھوٹے کاشتکاروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور اس امر کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا کہ انہیں بھی اختراع کے ثمرات حاصل ہونے چاہئیں۔ وہ بطور خاص خواتین کاشتکاروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے جذبے سے سرشار تھے۔
پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن کے متعلق ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو ازحد اہم ہے – وہ اختراع اور سرپرستی کے معاملے میں ایک پیش رو شخصیت کے طور پر کھڑے رہے ۔ جب انہوں نے 1987 میں عالمی خوراک پرائز حاصل کیا وہ اس مقتدر اعزاز کو حاصل کرنے والے اولین شخص تھے، انہوں نے انعام میں حاصل ہونے والی رقم کا استعمال ایک منافع نہ کمانے والے تحقیقی فاؤنڈیشن کے قیام کے لیے کیا۔ تاحال یہ ادارہ مختلف شعبوں میں وسیع تر کام انجام دے رہا ہے۔ انہوں نے بے شمار اذہان کی پرورش کی ہے انہیں پروان چڑھایا ہے، ان کے اندر سیکھنے اور اختراع کا جذبہ جاگزیں کیا ہے۔ ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ان کی زندگی ہمیں علم، سرپرستی اور اختراع کی پائیدار قوت کی اہمیت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے طفیل ایسے متعدد مراکز قائم ہوئے جہاں فعال تحقیقی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ان کی ایک اہم مدت کار بین الاقوامی چاول تحقیق ادارہ منیلا کے ڈائریکٹر کے طور پر تھی۔ جنوبی ایشیائی علاقائی مرکز برائے بین الاقوامی چاول تحقیق نام کا ادارہ بھی وارانسی میں 2018 میں کھولا گیا۔
میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کورل کا حوالہ دینا چاہوں گا، اس میں لکھا ہے کہ اگر وہ لوگ جنہوں نے مضبوطی کے ساتھ منصوبہ بندی کی ہے، تو وہ لوگ وہ حاصل کریں گے جس کی انہوں نے جس انداز میں خواہش کی ہے۔ یہاں ایک ایسی جید شخصیت تھی جس نے اپنی زندگی کے اوائل میں ہی یہ طے کر لیا تھا کہ وہ زراعت کو مستحکم بنانا چاہتا ہے اور کاشتکاروں کی خدمت کا متمنی ہے اور انہوں نے یہ کام بے مثال طریقے سے اختراعی انداز میں پورے جوش و جذبے سے انجام دیا۔ ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن کا تعاون ہمیں زرعی اختراع اور ہمہ گیری کے راستے پر آج بھی ترغیب فراہم کر رہا ہے اور ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ ہمیں ان اصولوں کے تئیں اپنے آپ کو ازسر نو وقف کرتے رہنا چاہئے جو انہیں بہت عزیز تھے، یعنی کاشتکاروں کے کاز کو پروان چڑھانا اور سائنسی اختراع اور تحقیق کے ثمرات کو ان کے لیے یقینی بنانا کیونکہ یہی ہماری زرعی توسیع کی بنیادیں ہیں جو نمو، ہمہ گیری اور آئندہ پیڑھیوں کے لیے خوشحالی کو فروغ دیں گی۔