از قلم: عبداللہ عظمت اللہ ریاضی
متعلم: جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ سعودی عرب
کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ
دیکھا نہ کوہ کن کوئ فریاد کے بغیر,
آتا نہیں ہے فن کوئ استاد کے بغیر,
نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ۔ یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کی جاسکتا۔ استاد کو قوم کا معمار کہا جاتا ہے اور روحانی والدین کا درجہ دیا جاتاہے۔ استاد کا پیشہ ایسا ہے جس کا تعلق پیغمبری سے ہے۔ اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے جو ایک ایسی صنعت کا درجہ رکھتا ہے جس پر تمام صفات کا ہی نہیں بلکہ ساری زندگی کا دارومدار ہے۔ معلمین کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں استاد کے بارے میں عموماً غیر سنجیدہ قسم کی رائے رکھی جاتی ہے اور انہیں وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ حق دار ہیں۔ ایک جانب اساتذہ نے شاگردوں کی پروا کرنی چھوڑی، تو دوسری جانب شاگردوں نے ادب ترک کر دیا۔
اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے
ہم سب یہ بچپن سے سنتے اور پڑھتے آرہے ہیں کہ استاد و استانی روحانی باپ و ماں ہو تے ہیں ۔اسکول جانے سے پہلے داداجان ابو امی ہمیں بلا کر کینٹین کے لئے کچھ جیب خرچ دیتے اور ساتھ ہی نصیحت بھی کرتے جو عام طور پر ہرٹیچر کے احترام کے بارے میں ہی ہوتی ۔آج اس کا نتیجہ اس کے برعکس نظر آرہا ہے,
یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ والدین کے بعد استاد ہی تربیت کا و سیلہ ہوتے ہیں ۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ وہ ہستیاں ہیں جولوہے کو کندن ،پتھر کو ہیرا ، بنجر زمین کو زرخیز اور صحرا کوگلستاں بناتی ہیں۔یہ معمار بھی ہیں لوہار بھی ہیں اور دہقان بھی ہی ,
اسلئے شاعر کا قول,
“رہبر بھی ہمدم بھی یہ غمخوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے”
لیکن موجودہ دور میں استاد بننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔
ماضی قریب ہی کی بات ہے جب والدین بچوں کو استاد کے سپرد کر کے کہتے تھے کہ لیجئے جناب! اب چمڑی آپ کی ہے اور دمڑی ہماری ہے“، یعنی اصلاح کی غرض سے اس کی جتنی بھی پٹائی کریں، ہمیں کو ئی شکایت نہیں ہو گی۔
شاگرد بھی بہت مودب ہوا کرتے تھے ۔وہ استاد کی خدمت کرنا اپنا فرض ہی نہیں بلکہ اسے نیکی سمجھتے تھے۔استاد کے سامنے نظریں جھکا کر بات کرتے تھے ۔ شکوے شکایات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔آج استاد اگر کچھ کہہ دے تو والدین لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ بچوں کے سامنے ان کا گریبان تک پکڑنے سے گریزنہیں کرتے۔ چھوٹے چھوٹے بچے گھر آ کر ٹیچرز کی شکایتیں کرتے ہیں اور والدین ان کے سامنے انہیں برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور بچے کو یقین دلاتے ہیں کہ بے فکر رہو،کل صبح ہونے دو صبح جا کر آپ کے استاد یا استانی کی خبر لیتے ہیں۔ تم دیکھنا ہم ان کا کیا حشر کرتے ہیں ۔یہ الفاظ میری بہت ہی قریبی عزیز کے ہیں جو میں نے اپنے کانوں سے سنے ہیں۔
ہم بچپن میں فخر سے کہا کرتے تھے کہ بڑے ہو کر فلاں ٹیچرجیسے
بنیں گے ۔وہ تو ہماری رول ماڈل ہیں۔
لیکن اب صورت حال اور بد نظمی کی ایسی مثال ہے جو بالکل اسکے برعکس ہے۔اور نظم و ضبط بھی کسی طور پر موزوں نہیں۔نظم و ضبط سے مراد وہ ا صول و ضوابط ہیں جو روز مرہ کی زندگی پر لاگو ہوتے ہیں, اور زندگی کے پہئے کو گھمانے میں ممد ہوتے ہیں۔ انسان کی پیدا ئش کے بعد سے ہی ان کی نشو نما ایک پودے کی طر ح شروع ہو جا تی ہے ۔سر زمینِ وطن کی مٹی بہت زر خیز ہے لیکن افسوس اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ۔ نسلِ نو کا مستقبل ان اسکولوں سے وابستہ ہے ۔ایک جانب پڑھانے والوں کا احترام اور دوسری جانب انہیں کی جا نب سے فرائض سے غفلت،چہ معنی دارد ؟
کسی شاعر نے کہا تھا :
جن کے دا من کی ہوا میرے چرا غوں پہ چلی
وہ کوئی اور کہاں تھے ، وہ مرے ہم دم تھے
ان حالات میں بچوں پر کیا اثر پڑے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔اب تو تہذیب اور ادب آداب کے اطوار بھی بدل چکے ہیں اسی لئے آج استاد بننا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بچوں کے ذہنوں میں استاد کی عزت و وقار پامال کرنے کے ذمہ دار والدین بھی ہیں ۔بچوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ استاد تو ان کے تنخواہ دار ملازم ہیں ۔ لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ استاد کی عظمت علم کی بارش کے مترادف ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ
با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب ۔“
ہماری تاریخ میں بیشتر واقعات موجود ہیں جو استاد کی عزت و تکریم کا سبق دیتے ہیں .
مشہور ہے کہ ہارون رشید نے اپنے درباریوں سے سوال کیاکہ آج سب سے زیادہ عزت کس کی ہے ؟
انہو ں نے کہا کہ بادشاہ سلامت کی ۔خلیفہ بولے کہ نہیں ،ایک استاد کی ہے, پھر انہوں نے دونوں شہزادوں مامون اور امین کے جھگڑے کا قصہ سنایا کہ کس طرح ان کے اپنے بیٹے استاد کے جوتے اٹھانے کے لئے آپس میں جھگڑا کر رہے تھے ۔
شمس العلماء مولوی میر حسن، علامہ اقبال کے استاد تھے۔وہ اپنے استاد کا بے حد احترام کرتے تھے ۔آپ ہی کے مشورے پر حکومت نے مولوی صاحب کو شمس العلماءکا خطاب دیاتھا ۔جب حکومت نے پو چھا کہ مولوی صاحب نے کون سی کتاب لکھی ؟ علامہ اقبال نے جواب دیا ان کی زندہ کتاب میں خود ہوں۔ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ علامہ اقبال سیالکوٹ کے بازار میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھے تھے۔ انہوں نے ایک جوتا پہن رکھا تھا اور دوسرا اترا ہوا تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ مولوی صاحب گزر رہے ہیں ۔ یہ اسی طرح ایک جوتا پہنے دوڑے اور ان کو گھر تک چھوڑ کر پلٹے ۔
فاتح عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے ۔را ستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آ گیا ۔استاد اور شا گرد میں بحث شروع ہوئی کہ نالہ پہلے کون پار کرے گا ۔سکندر اعظم نے بضد ہو کر نالہ عبور کیا اور بعد میں ارسطو نے سوال کیا کہ تم نے پہل کر کے میری بے عزتی نہیں کی ؟ اس پر انہوں نے جواب دیا ، ” نہیں استاد محترم ! میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے ۔ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا ۔“
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح ہم نے اپنی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا، اسی طرح رشتوں کا بھی احترام مٹی میں ملادیا ۔استاد اور شاگرد کا رشتہ کبھی بہت مقدس گردانا جاتا تھا ۔ جب علم بھی کسبِ معاش کی خاطر حاصل کیا جانے لگا تو پھر شکوہ کیا کریں ؟ تیسری دنیا کے ممالک ہی میں یہ عزت و احترام ختم ہوا ہے ورنہ جن ممالک کی ہم نقالی فضول رسموں میں کرتے ہیں وہاں یہ احترام موجودہے۔ اس کی و جہ یہ بھی ہے کہ وہاں حکومتیں انہیں اتنی مراعات دیتی ہیں کہ وہ معاشی طور پر خود کفیل ہوتے ہیں ۔ انہیں ٹیوشن کے لئے منت نہیں کرنی پڑ تی ۔
ہمارے معاشرے میں استاد اور شاگرد کے روابط ایسے معیاری نہیں رہ گئے ہیں جیسا کہ ہونا چاہئیں۔
آج استاد و استانی کا نام بھی حقارت سے لیا جاتا ہے . آج کے طلباء و طالبات استادوں کے فضول قسم کے نام رکھتے ہیں۔وہ تختہ سیاہ پر لکھنے کے لئے مڑتے ہیں تو یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے طلبہ و طالبات کی پروا نہیں کرتے ۔ ان کے مستقبل سنوارنے کے بارے میں وہ کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
کاش ان معمارانِ قوم کو ان کا مقام دیا جائے ۔اکثر کو شکوہ کرتے سنا ہے کہ استاد سختی بھی بہت کرنے لگے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ
ان کی تر بیت کا حصہ ہے ۔عقلمند والدین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔اکثر استاد فرسٹریشن کی وجہ سے بھی بد مزاج ہو جاتے ہیں جس کی وجہ ان کے ملازمت کے حالات ہوتے ہیں اور معا شی اونچ نیچ بھی
اگر ہم ایسی تعلیم کے خواہاں ہیں جو دلِ بینا اور خوابیدہ صلا حیتوں کو بیدار کرنے کا ذریعہ بنے تو ہمیں اس وسیلے کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنی چاہئیں جس کے ذمے یہ فرض ہے ۔ استاد کی دعا سے تو اخروی زندگی میں بھی نکھار آتا ہے ۔ ” استاد معاشرے کے با غبان ہیں“
علا مہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھاکہ:
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
آخیر میں یہ ایک شعرعرض کرنا چاہوں گا کہ
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں