ڈاکٹر نعمان خان
ملک کی سب سے قدیم کانگریس پارٹی ان دنوں ملکی سیاست میں اپنا وجود بچانےکی جدوجہد میں ہے اور کانگریس کے اعلیٰ کمان سے لے کر کانگریس پارٹی کے زمینی لیڈران ہر طرح کا جتن کر رہے ہیں کہیں پیدل یاترائیں کی جاتیں ہیں تو کہیں نرم ہندوتو کا کارڈ بھی کھیلا جاتا ہے دیش بچائو سنودھان بچائو کے نعروں کے ساتھ پیدل یاترائوں کے سہارے سیاسی زمین تلاش کی جا رہی ہے ملک میں سیکولرزم بنام کیمونلزم کی لڑائی میں جیت کس کی ہار کس کی اس کا فیصلہ ملک کی عوام کو کرنا ہوتا ہے اور موجودہ دور میں عوام کا اعتماد ملک کے وزیرِ اعظم کے ساتھ ہے۔
حالیہ دنوں پانچ صوبے راجستھان،چھتیس گڑھ،ایم پی،تلنگانہ اور میزورم میں انتخاب ہوا جس میں تمام سیاسی ماہرین کانگریس پارٹی کی واپسی کی قیاس آرائی کر رہے تھے لیکن نتیجہ اس کے برعکس آیا صرف تلنگانہ کو چھوڑ کر بقیہ تمام صوبوں میں کانگریس کو شکست کا سامنا کر نا پڑا حالانکہ، سابق وزیر اعلیٰ،اشوک گہلوت،کمل ناتھ اور بگھیل اور دیگر کانگریسی لیڈران اپنی جیت کو لے کر پر امید تھے تو وہیں بعض میڈیا اہلکار حیرت انگیز نتائج کی طرف اشارہ دے رہے تھے لیکن نتیجہ بالکل الٹ نکلا اور کانگریس پارٹی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا جب کہ انڈیا اتحاد جود میں آتے ہی قیاس آرائیوں کا دور شروع ہو گیا تھا کچھ لوگ بی جے پی کی ہار کو یقینی ماننے لگے تھے تو وہیں ۲۰۲۴ کی ہار کو بھی لے کر پر امید تھے اور ٹرائل کے طور پر دیکھ رہے تھے دراصل ہار جیت پارٹی کی مقبولیت اور عوامی مدعوں کی وجہ سے ہوا کرتی ہے دیگر پارٹیوں کو یہ بات سمجھنا ہوگا کہ زمینی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت بر قرار ہے۔
وہیں مودی حکومت زمینی اور عوامی مدعوں کے ذریعہ عوام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے خاص طور پر وزیر اعظم رہائش اسکیم،بیت الخلاء کمیونٹی بیت الخلاء،کسان سمان ندھی،اجولا یوجنا و دیگر عوامی فلاحی اسکیموں نے زمینی طور پر عوام کے دلوں میں جگہ بنایا ہے اور اس میں سب سے بڑا رول وزیر اعظم نریندر مودی کا ہے جب کی کانگریس پارٹی نے نرم ہندوتو پر چلتے ہوئے عوام کو رجھانے کی کوشش کی مہنگائی، نظم و نسق و دیگر مدعوں کو خوب اٹھایا بی جے پی حکومت کی ناکامیوں کو خوب گنایا گیا بدعنوانی کے مدعے بھی اٹھا ئے گئے گیس سلنڈر کی قیمتوں کو کم کئے جانے کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن سب کچھ بیکار ثابت ہوا اور نتیجہ بی جے پی کے حق میں چلا گیا اور تمام صوبوں میں بڑی ہی آسانی سے بی جے پی نے اپنی حکومت بنا لی اس سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ بی جے پی کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہے اور تنظیم کی مضبوطی اعلیٰ درجہ کی ہے بی جے پی میں ڈسپلن ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کامیاب ہو جاتی ہے وہیں حزب اختلاف کے ذریعہ ای وی ایم پر ہار کا ٹھیکرا پھوڑا جا تا ہے یہ بات سمجھ سے پرے ہے بی جے پی کے لیڈران اور کیڈر کے لوگ زمینی طور پر محنت کرتے ہیں ایک ایک فرد ایک گھر کو ٹچ کرتے ہیں میرے خیال میں حزب اختلاف کو مودی کو شکست دینے کی ضد کو چھوڑ کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا عوامی مسائل اور ان کے بنیادی حقوق کے لئے لڑنا ہوگا تنظیم کو مضبوط بنانے کے ساتھ خود اعتمادی کے ساتھ فیصلہ لینا ہوگا۔
کانگریس پا رٹی کی ہار کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جس میں ایک وجہ کانگریس پارٹی اعلیٰ کمان کے ذریعہ فیصلہ لینے میں دیر کرنا زمینی طور پر پارٹی کے لیڈران میں اندرون چپقلش بازی،ڈسپلن کی کمی،عوامی مدعوں کو پرزور طریقہ سے نہ اٹھائے جانے اور ڈھمل مل رویہ کی وجہ سے اور مضبوط فیصلہ نہ لینے سے ہار ہوتی ہے اب تو ایسا لگتا ہے کہ مضبوط فیصلہ لینا ہی کانگریس پارٹی کے بس میں نہیں رہا ہے کانگریس پارٹی کو سینئر لیڈران کو باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے نوجوانوں کو موقع دینا چاہئے کیوں کہ نوجوان کسی کام کو سوجھ بوجھ اور توانائی کے ساتھ کرتا ہے اور نوجوانوں کے عزم سے ہی منزلیں طے ہوا کرتی ہے بڑے بزرگوں کا مشورہ لیا جائے لیکن فیصلے کے لئے خود اعتمادی والی قیادت کو آگے آنا ہوگا نئے چہروں کو موقع دیا جانا ہے بی جے پی میں سب کو موقع دیا جاتا ہے زمینی کارکن اگر بہتر ہے تو اس کو موقع دیا جاتا ہے یہ بات دیگر پارٹی کے لوگ کیوں نہیں سمجھ پاتے ہیں ان کے یہاں ادنیٰ کارکن کی باتوں کو سننے کی باتیں تو خوب ہوتی ہیں لیکن زمینی طور پر ایسا نہ ہونے سے کارکن خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہوئے یا تو بغاوت کر جاتا ہے یا پھر پارٹی کے اندر رہ کر پارٹی کو نقصان پہنچاتا ہے بعض سیکولر پارٹیاں ایسی بھی ہیں جو بی جے پی کو لے کر کنفیوزن کی کیفیت میں مبتلا ہیں حالانکہ ان کوخود کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے کچھ لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کے متعلق برا بھلا کہتے ہیں حالانکہ ملکی سیاست میں ذاتی تبصروں کی تو جیسے بوچھار ہونے لگی ہے ایک دوسرے کے ساتھ نازیبہ تبصرے کرنا سیاسی میدان میں عام بات ہوگئی لیکن اخلاقی طور پر اس طرح کی سیاست سے پرہیز کی ضرور ہے وزیر اعظم نریندر مود کو راہل گاندھی کے ذریعہ پنوتی جیسے الفاظ استعمال کئے گئے اور جب نتائج سامنے آئے تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا اور کانگریس پارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارم کے ذریعہ ایک دوسرے پر نازیبہ تبصرے کئے جاتے ہیں جو بالکل درست نہیں ہے۔
سیکولر سوچ کے ساتھ ملک آزاد ہوا تو دہائیوں تک سیکولر پارٹی جس میں زیادہ دنوں تک کانگریس پارٹی کا قبضہ رہا ہے اور اقلیتوں کے بوتے کانگریس و دیگر سیکولر پارٹیاں اقتدار تک پہنچتی رہیں اس دوران کانگریس پارٹی نرم ہندو تو کو پروان چڑھاتی رہی اور ملک کے بیشتر ریاستوں میں ہندو و مسلم دنگے رونما ہوتے رہے ۹۰ کی دہائی میں رام مندر اور بابری مسجد قضیہ پروان چڑھا اور لال کرشن اڈوانی و دیگر سخت گیر لیڈران نے مدعے کو پروان چڑھاتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا لیکن ۲۰۱۴ میں بی جے پی نے نریند مودی کے چہرے پر انتخاب لڑا اور اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور ملک کے بیشتر ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت وجود میں ہے اور دہائیوں سے نرم ہندوتو کا کارڈ کھیل رہی کا نگریس پارٹی کو پے در پے ہار کا منھ دیکھنا پڑ رہا ہے یہاں تک کی کانگریس پارٹی کے بعض امیدوار انتخاب میں اپنی ضمانت بچانے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں جہاں تک مسلم ووٹرو کا معاملہ ہے تو مسلمان خود متحد نہیں ہے منفی سوچ کے ساتھ اکثر مسلم نوجوان واٹس ایپ و دیگر پلیٹ فارم کے ذریعہ بی جے پی مخالفت میں نہ معلوم کتنے تبصرہ کر جاتے ہیں ان میں بعض تبصروں کی وجہ سے ان کو مصیبتوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے میرا سوال ہے کہ کیا وزیر اعظم نے ترقیاتی اسکیموں کو فائدہ پہنچانے میں آپ کے ساتھ امتیاز برتا ہے بلکہ کچھ اسکیمیں مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لئے چلائی ہیں ملک میں جو بھی عوامی فلاح کے لئے بنائی گئی ہیں ان اسکیموں کا فائدہ ہر ایک کو ملا ہے اس لئے مخالفت کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ ہمیں سیاستی،تعلیمی طور پر بیدار ہونے کی ضرور ت ہے۔
مضمون نگار ماہر تعلیم ہیں