مجیب سنابلی
مملکت توحیدسعودی عرب کتاب و سنت پر قائم ایک امن پسند ملک ہے، یہاں کی حکومت ہمہ وقت پورے عالم بالعموم اور مشرق وسطی میں بالخصوص قیام امن کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ 1945ءمیں لندن کانفرنس سے ہی سعودی عرب نے ہر اسٹیج اور ہر بڑے پلیٹ فارم سے مسئلہ فلسطین کو نہایت ہی پرزور طریقے سے اٹھایا ہے اور ہمیشہ فلسطینی حکومت اور عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا نظر آیا ہے ۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے پورے عالم میں جتنی بھی کانفرنسیں منعقد ہوئیں، جتنے بھی اجتماعات ہوئے، سب میں اس حکومت نے سرگرم شرکت درج کرائی ہے بلکہ پوری نیک نیتی کے ساتھ مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی پوری کوشش کی ہےاور ہمیشہ سے پورے عالمی برادری سے مطالبہ رہا ہے کہ 1967ء کے بعد اسرائیل نے جن فلسطینی اراضی کو غصب کرکے ناجائز قبضہ جما لیا ہے، اسےغیر مشروط طریقے سے فوری طور پر واپس کرے اور فلسطین کو پوری دنیا ایک مستقل آزاد ملک تسلیم کرے، جس کی دارالحکومت (راجدھانی) القدس ہو ۔
ابھی حالیہ دنوں میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل نے جس جارحیت کے ساتھ غزہ کے معصوم اور بے قصور عوام پر حملہ کیا ہے اور مسلسل ایک مہینے سے سفاکیت و درندگی کا جو ننگا ناچ ناچ رہا ہے، اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
اس ایک طرفہ جنگ میں اسرائیل نے عالمی جنگی قوانین اور نظام کی دھجیاں اڑادی ہیں ، بچوں، بزرگوں ،عورتوں اور بے قصور عوام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو کر اب تک غزہ میں تقریباً 11ہزار افراد شہید ہوگئے ہیں، جن میں سے تقریباً 4500بچے ،3000عورتیں اور 650 کے قریب بزرگ ہیں اور تیس ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں ۔
آزمائش کی اس گھڑی میں اہل فلسطین کے لیے اگر کسی ملک نے کھل کر ہر سطح پر کام کیا ہے،تو وہ سعودی عرب ہے ،جنگ کے پہلے دن سے ہی سعودی حکومت مسلسل جنگ بندی کی کوششیں کر رہی ہے، خادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان حفظہما اللہ نے مختلف ممالک کے سربراہان سے اسی مسئلہ کو لے کر ٹیلیفونک گفتگو کی اور سعودی وزیر خارجہ نے عالمی پیمانے پر دورے کیے، مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے مل کر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کی بھرپور کوششیں کیں نیز اس حکومت نے ملک و بیرون ملک میں فوری کانفرنسوں اور اجتماعات کا انعقاد کیا اور مسلسل یہ عمل جاری ہے تاکہ بات چیت کے ذریعہ جلد از جلد مسئلہ کا کوئی حل نکلے اور ظالم و سفاک و درندہ صفت اسرائیل کو ظلم و سفاکیت سے روکا جا سکے۔
سعودی عرب فلسطین کا نہ صرف سیاسی طور پر معاون رہا ہے، بلکہ فلسطین اور اہل فلسطین کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمیشہ اپنے خزانے کے دہانے کو کھولے رکھا ہے۔ سن 1978ء کے عراق کانفرنس میں سعودی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مسلسل دس سال تک فلسطین کو ایک ارب نو کروڑ تہتر لاکھ امریکی ڈالر سالانہ دے گا۔
سن1987ء کے جزائر کانفرنس میں سعودی عرب نے فلسطین کو ماہانہ 60 لاکھ امریکی ڈالر دینے کا اعلان کیا ۔
سن 1994ء سے لےکر 1999ء تک مختلف طبی،تعلیمی اور تعمیری پروجیکٹ کے لئے تقریباً تین سو ملین ڈالر سعودی عرب نے فلسطین کو عطا کیا ہے۔ سن 2000ء کے قاہرہ کانفرنس میں فلسطین کی تعمیر و ترقی کے لئے سعودی عرب نے تقریبا 250 ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا ۔ماضی کے جھروکے سے سعودی عرب کی سخاوت و فیاضی کہ یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ تعاون کی یہ فہرست بہت طویل ہے۔ جسے صفحہ قرطاس پر لانا ممکن ہی نہیں ہے ۔
محترم قارئین! آج جب کہ پورا فلسطین درد سے کراہ رہا ہے، جس کے مکین آج بغیر مکان اور خورد ونوش کے نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،جن کا سب کچھ لٹ چکا ہے، خاندان اور گھر سب بکھر چکا ہے، جن کی لاشوں پر سیاست کرنے والوں اور جملے بازی کرنے والوں کی کثرث ہے، دور دور تک اللہ کے سوا کوئی سہارا نظر نہیں آرہا ہے، اس صورت حال میں بھی اللہ کی توفیق سے سعودی عرب آگے آتا ہے اور ہر سطح پر اپنے فلسطینی بھائیوں کے تعاون کی بھرپور کوشش کرتا ہے نیز مالی تعاون کے لیے اپنے ملک میں ایک عوامی مہم کا آغاز کرتا ہے اور اس ملک کے پاک طینت اور نیک فرمانروا خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز خود اس مہم کاحصہ بنتے ہوئے عملی طورپر 30 ملین ریال اور آپ کے حقیقی جانشیں شہزادہ محمد بن سلمان حفظہما اللہ نے 20 ملین ریال کا گراں قدر تعاون پیش کیا ۔ صرف چند دنوں کے اندر 6ھزار لوگوں نے 42کروڑ87لاکھ ریال اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے اکٹھا کردیاہےاور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے ۔یہ ایک ایسا عوامی تعاون ہے، جس کی نظیر ماضی میں ہمیں نہیں ملتی ہے۔ اللہ فلسطینی بھائیوں کا حامی و ناصر ہو اور سعودی حکومت و عوام کی حفاظت فرمائے اور انھیں مزید خدمت انسانیت کی توفیق بخشے۔